Maktaba Wahhabi

501 - 692
٭ ایک شخص دوسرے کو کہتا ہے کہ میں تجھے یہ مکان فروخت کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ تو مجھے فلاں فلاں چیز فروخت کرے۔ ٭ ایک دینار کے عوض دو مختلف چیزوں میں سے ایک فروخت کرتا ہے،جبکہ اس کا تعین نہ کیا جائے کہ ’’مشتری‘‘نے ان میں سے کون سی چیز خریدی ہے،اس لیے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:((نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِي بَیْعَۃٍ)) ’’آپ نے ایک’ ’بیع‘‘میں دو بیوع(ڈبل سودے)سے منع کیا ہے۔‘‘[1] 7 بیع العربون: کسی بھی حال میں مسلمان کے لیے عربون والی بیع کرنا جائز نہیں ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربون سے منع فرمایا ہے۔[2]امام مالک رحمہ اللہ نے ’’بیع العربون‘‘کی توضیح میں لکھا ہے کہ ایک شخص کوئی چیز خریدتا ہے یا جانور کرایہ پر لیتا ہے اور ایک دینار پیشگی دے کر کہتا ہے کہ اگر میں نے بقیہ رقم ادا کر کے سامان نہ لیا یا جانور کرایہ پر حاصل نہ کیا تو یہ دینار تیرا ہو جائے گا۔٭ 8 جو ملکیت میں نہیں ان چیزوں کی بیع: مسلمان کے لیے وہی چیز بیچنا جائز ہے جو اس کے پاس ہے،اس کی ملکیت میں ہے،کسی چیز کی عدم موجودگی اور ملکیت میں آنے سے پہلے فروخت کرنے میں دونوں کو تکلیف دہ صورت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،یعنی جب وہ چیز دستیاب نہ ہو سکے،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ‘ ’’وہ چیز نہ بیچ جو تیرے پاس نہیں ہے،(تیری ملکیت نہیں ہے)۔‘‘ [3] اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’نَھٰی عَنْہُ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَھُوَ الطَّعَامُ أَنْ یُّبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضہ میں لینے سے پہلے طعام(کھانے پینے کی چیزوں)کی ’’بیع‘‘سے منع کیا ہے۔‘‘[4] ٭ بیع العربون کی تعریف یہ کی گئی ہے:مایدفعہ المشتري للبائع علی أنہ إن أخذ السلعۃ احتسب بہ من الثمن و إن لم یأخذھا کان للبائع’’وہ رقم جو مشتری بائع کو اس شرط پر دیتا ہے کہ اگر اس نے مبیعہ(فروخت شدہ چیز)لے لی تو یہ رقم اس کی قیمت میں حساب ہوگئی اور اگر مبیعہ نہیں لیا تو ادا شدہ رقم بائع کی ہوگی۔معجم لغۃ الفقہاء(ع،و)
Flag Counter