Maktaba Wahhabi

520 - 692
مضاربت کے اختیارات کا حامل ہوتا ہے،اسی طرح ایک دوسرے سے ’’وکالت‘‘’’اس کی طرف سے خصومت‘‘اور’ ’رہن رکھنے‘‘ میں بھی دونوں حصہ دار کلی اختیار کے مالک ہوتے ہیں۔نفع و نقصان کی جو شرح وہ باہم طے کر لیں گے،اسی کے مطابق اس کا نفاذ ہو گا۔ مضاربت کا بیان: ٭ مضاربت کی تعریف: ’’مضاربت‘‘ کو’’قراض‘‘ بھی کہتے ہیں،یعنی مال ایک شخص فراہم کرے اور دوسرا اس میں کاروبار کرے اور منافع جس طرح وہ طے کر لیں،تقسیم ہو۔خسارہ اگر اصل مال میں ہوا ہے تو وہ مال کے مالک کے ذمے ہے،اس لیے کہ عامل(کارکن)کو اس کی محنت کا خسارہ ہی کافی ہے(اس کی محنت بیکار گئی)،مزید اسے خسارہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٭ مضاربت کی مشروعیت: صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمۂ عظام رحمۃ اللہ علیہم کا ’’مضاربت‘‘کے جواز پر اجماع ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کا رواج تھا اور آپ نے اسے بحال رکھا۔[1] ٭ مضاربت٭ کے احکام: 1: یہ معاملہ ان مسلمانوں کے مابین ہونا چاہیے،جنھیں تصرف کرنے کا اختیار ہو،ہاں اگر اصل مال کافر کا ہے اور کام مسلمان نے کرنا ہے تو مسلمان اور کافر کے مابین بھی ’’عقد مضاربت‘‘درست ہے،اس لیے کہ مسلمان سے سود کا خطرہ نہیں ہے اور نہ یہ کہ وہ اس میں کوئی حرام مال شامل کر دے گا۔ 2: رأس المال(اصل سرمایہ)معلوم ہونا چاہیے۔ 3: منافع میں سے ’’عامل‘‘کا حصہ متعین ہونا چاہیے۔اگر انھوں نے معاہدے کے وقت تعین نہیں کیا ہے تو عامل کو صرف مزدوری ملے گی اور سارا منافع مال کا مالک لے جائے گا۔اگر طے یہ ہوا کہ منافع ہمارے مابین ہو گا تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ منافع دونوں میں برابر برابر ہے۔ 4: اگر منافع کے بارے میں اختلاف ہو جائے کہ1/4(چوتھائی)طے ہوا تھا یا 1/2(نصف)حصہ تو اس صورت میں مال کے مالک کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہو گی۔ 5: عامل ’’مضاربت‘‘پر لیا ہوا مال آگے کسی اور کو ’’مضاربت‘‘پر نہیں دے سکتا،اس لیے کہ اس میں پہلے کے مال میں نقصان کا خطرہ ہے اور مسلمان کو نقصان پہنچانا حرام ہے۔ہاں،اگرمالک نے اس کی اجازت دی ہے تو ٭ مضاربت:نفع میں شریک بنا کر کسی کو تجارت کے لیے مال دینا اوراس کا اسے چلانا۔(الاثری) ٭ اگر مالک کہے کہ مجھے اتنا منافع ہر صورت چاہیے تجھے کچھ بچے یا نہ بچے تو یہ جائز نہیں ہے،اس کے بجائے یہ طے ہونا چاہیے کہ حاصل شدہ منافع(کم ہو یازیادہ)کا اتنا حصہ عامل کا باقی مالک کا ہو گا۔(ع،ر)
Flag Counter