Maktaba Wahhabi

523 - 692
کا نصف(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو)ادا کریں گے اور آپ اس آمدنی سے اپنی بیویوں کو ایک سو وسق دیتے تھے۔‘‘[1] ’’مزارعت‘‘کی ممانعت میں جو احادیث مروی ہیں انھیں علماء اس صورت پر محمول کرتے ہیں کہ مالک زمین کاشتکار سے کہے کہ فلاں حصہ زمین کی پیداوار میری اوراس کے علاوہ تمھارے لیے ہوگی۔رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس توجیہ کی تائید کرتی ہے: ((کُنَّا أَکْثَرَ الْأَنْصَارِ حَقْلًا،فَکُنَّا نُکْرِي الْأَرْضَ(عَلٰی أَنَّ لَنَا ھٰذِہِ وَلَھُمْ ھٰذِہِ)فَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ ھٰذِہِ وَلَمْ تُخْرِجْ زِہْ،فَنُھِینَا عَنْ ذٰلِکَ)) ’’انصار میں سے ہمارے کھیت زیادہ تھے اور ہم زمین کرائے پر دیتے تھے۔اس طرح کہ ہم اس قطعے کی آمدنی لیں گے اور کاشتکار فلاں قطعے کی،پھر بسا اوقات اس قطعے میں تو آمدنی ہوتی اور دوسرے میں نہ ہوتی،چنانچہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کر دیا۔‘‘[2] جمہوریہ بھی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے آپ نے محض کراہت(تنزیہی)کے طور پر منع کیا ہو(حرمت مراد نہ ہو،)جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ((أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَمْ یَنْہَ عَنْہُ،وَلٰکِنْ قَالَ:أَنْ یَّمْنَحَ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ خَیْرٌ لَّہُ مِنْ أَنْ یَّأْخُذَ عَلَیْہِ خَرْجًا مَّعْلُومًا)) ’’نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عقدِ مزارعت‘‘سے منع نہیں کیا،البتہ یہ فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے(کاشتکار)بھائی کو(ضرورت سے زائد)رقبہ(کاشتکاری کے لیے)دے دے،یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ اس سے پیداوار کا معلوم حصہ وصول کرے۔‘‘[3] ٭ مزارعت کے احکام: 1: مزارعت کی مدت معلوم اور متعین ہوجیسا کہ ایک سال یا دو سال۔ 2: جس حصے پر اتفاق ہوا ہے،اس کی مقدار معلوم ہو،مثلاً:آدھا یا تیسرا یا چوتھائی حصہ وغیرہ اور وہ حصہ حاصل شدہ کل آمدنی میں سے نکالا جائے گا۔اگر یہ کہا گیا کہ صرف فلاں قطعے کی آمدنی تیری ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ 3: بیج زمین کا مالک دے گا۔اگر بیج عامل مہیا کرے توبھی درست ہے۔٭ ٭ فتح الباری میں ہے کہ’ ’مخابرہ‘‘میں بیج عامل کے ذمہ ہوتا ہے اور’ ’مزارعہ‘‘میں بیج مالک زمین دیتا ہے۔(مؤلف)اور دونوں صورتیں بلاشبہ جائز ہیں۔دیکھیے:حاشیۃ الروض المربع:289,288/5(عبدالولی)
Flag Counter