Maktaba Wahhabi

526 - 692
٭ اجارہ کے احکام: 1: علم یا ہنر سکھانے کے لیے استاد کو تنخواہ دینا جائز ہے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے بعض قیدیوں کو مدینہ کے بچوں کو لکھنا سکھانے کے عوض چھوڑا تھا۔ 2: یہ بھی جائز ہے کہ کوئی شخص کھانے اور کپڑے کے عوض کام کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ مُوسٰی آجَرَ نَفْسَہُ ثَمَانِيَ سِنِینَ أَوْعَشْرًا عَلٰی عِفَّۃِ فَرْجِہِ وَطَعَامِ بَطْنِہِ)) ’’موسیٰ(علیہ السلام)نے آٹھ یا دس سال کے لیے اپنی شرم گاہ کی عفت(نکاح کرنے)اور اپنے پیٹ کے کھانے پر مزدوری کی ہے۔[1] 3: متعین مدت کے لیے(مثلاً:10سال،20سال)کوئی مکان کرایے پر لینا درست ہے،جبکہ ظن غالب یہ ہو کہ مکان اس مدت تک باقی رہے گا۔ 4: ایک شخص نے کوئی چیز کرایے پر دے دی مگر لینے والے کو اس کے استفادے سے روک دیا ہے تو جتنی مدت رکاوٹ رہے گی،اس کا کرایہ ساقط ہو جائے گا اور اگر مستاجر(کرایے پر لینے والا)خود ہی اس سے فائدہ نہیں حاصل کر رہا تو اس کو پورا کرایہ دینا پڑے گا۔ 5: کرایے پر دی ہوئی چیز تلف ہو جائے تو ’’عقدِ اجارہ‘‘فسخ ہو جائے گا،مثلاً:مکان منہدم ہو جائے یا جانور مر جائے،وغیرہ۔البتہ جتنی مدت اجرت پر لینے والے نے اس سے فائدہ حاصل کیا ہے،اس کا کرایہ اس کو دینا پڑے گا۔ 6: اجرت پر دی ہوئی چیز میں اگر عیب کا پتہ لگے تو ’’عقد‘‘فسخ ہو جائے گا ا لّا یہ کہ وہ عیب مستاجر کو پہلے سے معلوم ہو اور اس کے باوجود اس نے اسے اجرت پر لینا قبول کیا ہو تو ’’عقد‘‘درست ہے اور اگر اس نے کچھ مدت اس عیب والی چیز سے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو اتنی مدت کا کرایہ دینا ہو گا۔ 7: ’’اجیر مشترک‘‘| درزی،لوہار وغیرہ کے فعل اور تفریط سے اگر کوئی چیز ضائع ہو جائے تو وہ اس کا ضامن ہو گا اور اگر اس کی دکان سے کوئی چیز ضائع ہو جائے تو یہ(کاریگر)ضامن نہیں ہے،اس لیے کہ سامان ودیعت(امانت)کے حکم میں ہے(کاریگر کے پاس سامان مالک کی امانت ہے۔) اور ’’ودیعت‘‘ضائع ہو جائے تو ضمان نہیں ہے،الّا یہ کہ’ ’صاحب ودیعت‘‘(کاریگر)کی کوتاہی کا اس کے ضائع ہونے میں کوئی دخل ہو اور اسی طرح ’’اجیر خاص‘‘ سے جسے کسی نے خاص اپنے کام کے لیے مزدور رکھا ہے،اگر اس ٭ وہ کاریگر جو مختلف لوگوں کے آرڈرز کی تعمیل کرتا ہے،مثلاً:درزی یا لوہار وغیرہ۔واللہ اعلم۔(ع،ر)
Flag Counter