Maktaba Wahhabi

536 - 692
٭ وکالت کا حکم: کتاب و سنت سے وکالت کا جواز ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا﴾’’صدقات وصول کرنے والوں کے لیے۔‘‘[1] جو کہ زکاۃ جمع کرنے میں امام وقت کے وکیل ہوتے ہیں۔ اور فرمایا:﴿فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَـٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ﴾ ’’تم اپنے میں سے ایک کو یہ چاندی دے کر شہر بھیجو،وہ اچھا طعام دیکھے اور اس میں سے تمھارے پاس کھانا لائے۔‘‘[2] یعنی اصحاب کہف نے اپنے میں سے ایک کو طعام خریدنے لیے وکیل بنایا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا:’اُغْدُ یَا أُنَیْسُ!إِلَی امْرَأَۃِ ھٰذَا،فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا‘ ’’انیس!اس شخص کی عورت کے پاس جاؤ،اگر اعتراف کر لے تو اس کو رجم کر دو۔‘‘[3] اس واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی انیس رضی اللہ عنہ کو دعوے کی تحقیق اور حد قائم کرنے میں اپنا وکیل مقرر کیا۔اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:’وَکَّلَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بَحِفْظِ زَکَاۃِ رَمَضَانَ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان المبارک کی زکاۃ(فطرانے)کی حفاظت کے لیے وکیل بنایا۔‘‘[4] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کو کہا:((إِذَا أَتَیْتَ وَکِیلِي فَخُذْ مِنْہُ خَمْسَۃَ عَشَرَ وَسْقًا،فَإِنِ ابْتَغٰی مِنْکَ آیَۃً فَضَعْ یَدَکَ عَلٰی تَرْقُوَتِہِ)) ’’جب تو میرے وکیل کے پاس جائے تو اس سے پندرہ وسق لے لینا،اگر وہ تجھ سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کی ہنسلی پر رکھ دینا۔‘‘[5] اور آپ نے اپنے غلام رافع اور ایک انصاری رضی اللہ عنہما کو بھیجا تو انھوں نے آپ کا نکاح میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کے ساتھ کیا۔تو اس طرح ان دونوں کو عقد نکاح کے لیے وکیل بنایا۔[6] ٭ وکالت کے احکام: 1: جس لفظ سے کسی کام کے کرنے کی اجازت معلوم ہو،اس سے ’’وکالت‘‘ کا اثبات ہو جاتا ہے،بنابریں اس کے لیے کسی مخصوص لفظ کی ضرورت نہیں ہے۔ 2: شخصی حقوق میں کسی بھی ’’عقد‘‘ کے لیے وکالت صحیح ہے،مثلاً:خرید و فروخت،نکاح،طلاق،رجوع(بیوی کو رجوع کی اطلاع بھیجنا)اور خلع وغیرہ،اسی طرح حقوق اللہ میں بھی جن میں نیابت ہو سکتی ہے،وکالت درست ہے،جیسا کہ
Flag Counter