Maktaba Wahhabi

540 - 692
لیے کہ یہ ’’بیع‘‘ کے حکم میں ہے۔ ٭ صلح نامہ کا تحریری نمونہ: بسم اللہ،اللہ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود لکھنے کے بعد تحریر کریں: ’’فلاں اور فلاں نے اپنے متنازعہ مکان کے بارے میں صلح کر لی ہے،جس کا حدود اربعہ یہ ہے جو ’’مدعیٰ علیہ‘‘ کے زیر قبضہ تھا،اس کا مالک فلاں ہے۔اس دعویٰ میں دونوں متنازع تھے،مصالحت کنندہ اعتراف کرتا ہے کہ مصالحت شرعیہ کے عوض اتنی رقم(روپیہ)یا فلاں چیز دوسرے فریق کو ادا کرے گا اور دونوں اس پر متفق ہیں اور مصالحت کنندہ نے دوسرے کو مکمل طور پر اس کی ادائیگی کر دی ہے اور دوسرے نے اس پر قبضہ کر لیا ہے اور دوسرا فریق بھی اقرار کرتا ہے کہ اس مکان میں صلح کا عوضانہ لینے کے بعد اس کا کوئی استحقاق نہیں ہے اور نہ کوئی دعویٰ اور مطالبہ باقی ہے اور اس میں اس کی ملک،نفع اور کسی بھی انداز میں استحقاق نفع کم نہیں ہے۔پھر دونوں اس پر شرعی طریق پر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ ویران اراضی کی آبادی،فاضل پانی،الاٹ منٹ اور چراگاہ کا بیان: ٭ غیر آباد زمین کو آباد کرنا:ویران زمین آباد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان ایسی زمینوں کو جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہیں،درخت لگا کر یا مکان تعمیر کر کے یا کنواں کھود کر آباد کرے اور اس طرح وہ اس کا مستحق اور مالک بن جائے۔ ٭ غیر آباد زمین کو آباد کرنے کا حکم: اس کا حکم جواز اور اباحت کا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’مَنْ أَحْیَا أَرْضًا مَّیْتَۃً فَھِيَ لَہُ‘ ’’جو ویران زمین کو آباد کرتا ہے،وہ اسی کی ہے۔‘‘[1] ٭ غیر آباد زمین آباد کرنے کے احکام: 1: ویران زمین کی آبادی سے آباد کار کی ملکیت کا اثبات دو شرطوں پر مبنی ہے،اولاً یہ کہ اس نے واقعتا اس کو آباد کیا ہے،درخت لگائے ہیں یامکانات تعمیر کیے ہیں یا پانی کے لیے کنویں کھودے ہیں،اس کی آبادی صرف کھیت کاشت کرنے،ظاہری علامات لگانے اور خاردار باڑھ لگانے سے ثابت نہیں ہو گی،البتہ اس سے اس کا حق دوسروں سے فائق ضرور ہو گا۔ثانیاً وہ زمین کسی اور کی ملکیت میں نہ ہو،اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((مَنْ أَعْمَرَ أَرْضًا لَّیْسَتْ لِأَحَدٍ فَھُوَ أَحَقُّ)) ’’جو شخص ایسی زمین آباد کرتا ہے،جو کسی کی نہیں ہے،وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘[2] 2: اگر زمین آبادی کے قریب یا اندر ہے تو حاکم کی اجازت کے بغیر اس کو آباد نہ کیا جائے،اس لیے کہ وہ مسلمانوں
Flag Counter