Maktaba Wahhabi

541 - 692
کی منفعت عامہ کے لیے مختص ہو سکتی ہے،جبکہ شخصی ملکیت کی وجہ سے عام لوگوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ 3: آباد کرنے سے کان(معدن)کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتی،چاہے نمک کی کان ہے یا تیل وغیرہ کی،اس لیے کہ ان سے عام مسلمانوں کا مفاد وابستہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمک کی کان ایک شخص کو دے دی تھی مگر اسے واپس لے لیا گیا تھا۔[1] 4: اگر کسی کی آباد کردہ زمین میں پانی کا جاری چشمہ نکل آیا تو وہی اس کا مستحق ہے،پہلے اپنی زمین سیراب کرے گا اور پھر فاضل پانی دوسرے مسلمانوں کے لیے ہو گا،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے:’اَلْمُسْلِمُونَ شُرَکَائُ فِي ثَلَاثٍ:فِي الْمَائِ وَالْکَلَأِ وَالنَّارِ‘ ’’سب مسلمان تین چیزوں میں حصہ دار ہیں۔پانی،گھاس اور آگ میں۔‘‘[2] ٭ چند ضروری باتیں: اگر قدیم کنویں کی نئی کھدائی کی جا رہی ہے تو اس کے اردگرد ضروریات عامہ کے لیے پچاس ہاتھ جگہ مختص کریں اور اگر کنواں نیا کھودا جا رہا ہے تو اس کے اردگرد پچیس ہاتھ جگہ مختص کر دیں۔اس پیمائش کا مالک کنویں والا ہو گا۔بعض سلف رحمہ اللہ سے یہ معمول ثابت ہے اور ایک روایت میں ہے: ’حَرِیمُ الْبِئْرِ مَدُّ رِشَائِ ھَا‘ ’’کنویں کا محفوظ حصہ اس کے رسے کی لمبائی کے برابر ہے۔‘‘[3] درخت یا کھجور کا ’’حریم‘‘(محفوظ حصہ)اس کی شاخوں یا ٹہنیوں کی لمبائی کے مطابق ہو گا۔بنا بریں ویران زمین میں اگر کوئی شخص درخت کا مالک بن گیا تو اس کی ٹہنیوں کے بقدر زمین کا وہ مالک قرار پائے گا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’حَرِیمُ النَّخْلَۃِ مَدُّ جَرِیدِھَا‘ ’’کھجور کا محفوظ حصہ،اس کی چھڑیوں کی لمبائی کے برابر ہے۔‘‘[4] مکان کا حریم(محفوظ حصہ)اتنی جگہ ہونی چاہیے جس میں کوڑا ڈالا جا سکے یا اونٹ بیٹھ سکیں یا گاڑی پارک کی جا سکے۔بنا بریں جو شخص ویران علاقے میں مکان بناتا ہے،اس کے ارگرد عرف کے مطابق مذکورہ ضروریات کے لیے جگہ مختص کی جائے گی۔ ضرورت سے زائد پانی: ٭ زائد پانی کی تعریف: اس سے مراد یہ ہے کہ ایک مسلمان کے پاس کنواں ہے یا نہر ہے اور اس کا پانی اس کی اپنی ضروریات،کھیت اور درختوں کو سیراب کرنے سے زائد ہے۔ ٭ زائد پانی کا حکم: اس کا حکم یہ ہے کہ ضرورت مند مسلمانوں کو معاوضہ وصول کیے بغیر وہ پانی مہیا کیا جائے،اس
Flag Counter