Maktaba Wahhabi

544 - 692
اور فرمایا:’اِسْقِ یَا زُبَیْرُ!ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَائَ إِلٰی جَارِکَ‘ ’’زبیر پانی پلاؤ،پھر اپنے ہمسایے کی طرف چھوڑ دینا۔‘‘[1] چراہ گاہ کا بیان: ٭ چراگاہ کی تعریف: اس ویران ’’قطعۂ اراضی‘‘ کو کہتے ہیں جس کو مخصوص جانوروں کے چرنے کے لیے مخصوص کیا جائے اور عام لوگوں کو اس میں چرانے سے روکا جائے۔ ٭ چراگاہ کا حکم: مسلمانوں کی عام زمینوں میں سے ایک ہاتھ بھی کوئی شخص اپنے لیے چراگاہ کے طور پر محفوظ نہیں کر سکتا،البتہ مسلمانوں کی مصلحت کے لیے صرف امام ایسا کر سکتا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’لَا حِمٰی إِلَّا لِلّٰہِ وَلِرَسُولِہِ‘ ’’حمی(چراگاہ)صرف اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے لیے ہو سکتا ہے۔‘‘[2] اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کا خلیفہ ہی کسی جگہ کو حمی(چراگاہ)کے طور پر مقرر کر سکتا ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بھی مصلحت عامہ کے خلاف نہیں کر سکتا،اس لیے کہ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرار دیا گیا ہو،وہ ہمیشہ مصالح عامہ میں صرف ہوتی ہے،جیسا کہ غنیمتوں کا پانچواں حصہ،فَے(کا سارا مال)اور رکاز(مدفون خزانے)کا پانچواں حصہ وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’نفیع‘‘ کا علاقہ اونٹوں اور جہاد کے گھوڑوں کے لیے مخصوص کر دیا تھااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایک قطعۂ زمین کو اس مقصد کے لیے متعین کیا تھا۔[3] اور اس بارے میں جب ان سے کہا گیا تو فرمایا: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ!لَوْلَا الْمَالُ الَّذِي أَحْمِلُ عَلَیْہِ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ مَا حَمَیْتُ عَلَیْھِمْ مِّنْ بِلَادِھِمْ شِبْرًا)) ’’اللہ کی قسم!اگر میرے پاس ایسے جانور نہ ہوں جن پر میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کو سوار کرتا ہوں تو میں زمین کا ایک بالشت حصہ بھی چراگاہ نہ بناتا۔‘‘[4] ٭ چراگاہ کے احکام: 1: ’’چراگاہ‘‘کا تعین اہل اسلام کا خلیفۂ وقت یا امام ہی کر سکتا ہے،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا حِمٰی إِلَّا لِلّٰہِ وَلِرَسُولِہِ‘ ’’چراگاہ(بنانے کا حق)صرف اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے لیے ہے۔‘‘[5] 2: صرف ویران اراضی کو جس کا کوئی مالک نہ ہو،چراگاہ بنایا جائے گا۔
Flag Counter