Maktaba Wahhabi

547 - 692
’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کر دو۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’أَدِّ الْأَمَانَۃَ إِلٰی مَنِ ائْتَمَنَکَ،وَلَا تَخُنْ مَّنْ خَانَکَ‘ ’’جس نے تجھے امین جانا اس کو امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس کے ساتھ خیانت نہ کر۔‘‘[2] ’’ودیعت‘‘امانت کے قبیل سے ہے اور ودیعت کا حکم مختلف حالتوں میں مختلف ہوتا ہے۔کبھی اسے قبول کرنا واجب اور لازم ہوتا ہے،جب ایک مسلمان کے مال کا تحفظ،کسی اور ذریعے سے ممکن نہ ہو اور کبھی مستحب،جب مالک خود بھی مال کی حفاظت کر سکتا ہو،اس لیے کہ یہ نیکی کے کام میں تعاون ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ﴾’’اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔‘‘[3] اور کبھی امانت کا قبول کرنا ناجائز ہوتا ہے،جب وہ مال کی حفاظت کرنے سے قاصر ہو۔ ٭ ودیعت کے احکام: 1: امانت رکھنے والا مالک اور اسے قبول کرنے والا امین دونوں عقل و خرد اور سوجھ بوجھ کے مالک ہوں،بنا بریں نابالغ لڑکا اور مجنون نہ امانت رکھیں اور نہ ان کے پاس امانت رکھی جائے۔ 2: امانت کے ضائع ہونے کی صورت میں مُودَع(جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے)’’ضامن‘‘ نہیں ہے،بشرطیکہ اس نے ظلم یا کوتاہی نہیں کی،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا ضَمَانَ عَلٰی مُؤْتَمَنٍ‘ ’’جس کوامین بنایا گیا ہے،اس پر ضمان(چٹی)نہیں ہے۔‘‘[4] 3: دونوں کو اختیار ہے،جب چاہیں ودیعت واپس کر سکتے ہیں۔ 4: ’’امین‘‘ کسی بھی انداز میں ’ ’امانت‘‘ سے منفعت حاصل نہیں کر سکتا الّا یہ کہ مالک نے اس کو اجازت دی ہو۔ 5: ’’ودیعت‘‘ کی واپسی میں اختلاف ہو جائے تو جس کے پاس امانت رکھی گئی تھی اس کی بات کا قسم کے ساتھ اعتبار ہو گا۔ا لّا یہ کہ امانت رکھنے والا ایسا ثبوت پیش کر دے جس سے ودیعت کا واپس نہ ہونا ثابت ہو جائے۔ ٭ ’’ودیعت‘‘ کا تحریری نمونہ: ’’فلاں اقرار کرتا ہے کہ اس نے فلاں سے مبلغ... امانت شرعیہ کے طور پر وصول کر لیے ہیں اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری کا التزام کرے گا اور اس جگہ اس کو محفوظ کرے گا،جہاں امانت دینے والا کہتا ہے،وہ اس تحریر کے وقت حاضر بھی ہے اور اس پر شرعی تصدیق ثبت ہے۔ واپسی کا تحریری نمونہ:’’فلاں اقرار کرتا ہے کہ اس نے فلاں سے مبلغ ... شرعی طریقہ سے واپس لے لیے
Flag Counter