ہیں اور ان پر قبضہ کر لیا ہے،یہ رقم اس کے پاس امانت کے طور پر رکھی گئی تھی۔اب اس کے پاس اس میں سے کم و بیش کچھ نہیں ہے اور رقم کی ادائیگی کرنے والا بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔مؤرخہ ....٭
عاریت(مستعار چیزوں)کا بیان:
٭ عاریت کی تعریف:
وہ چیز جو کسی کو کچھ وقت کے لیے دی جائے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرے،مثلاً:ایک مسلمان دوسرے سے قلم مانگتا ہے کہ تحریر کے لیے اسے دے یا کپڑا طلب کرتا ہے تاکہ وہ اسے استعمال کر سکے اور پھر واپس کر دے۔
٭ عاریت کی دلیل:
عاریتًا چیزیں دینا شرع میں ثابت ہیں،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ﴾’’اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔‘‘[1]
اور منافقوں کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:﴿وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ﴾’’وہ برتنے کی(عام)چیزوں کو روک رکھتے ہیں۔‘‘[2]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صفوان بن امیہ سے چند زرہیں عاریتًا طلب کیں تو اس نے کہا:اے محمد!کیا یہ غصب کے انداز میں ہے تو آپ نے فرمایا:
’بَلْ عَارِیَۃٌ مَّضْمُونَۃٌ‘’’بلکہ عاریتًا لے رہے ہیں اور(ہم)ان کی ادائیگی کے ذمہ دار ہیں۔‘‘[3]
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَامِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَّلَا بَقَرٍ وَّلَا غَنَمٍ لَّا یُؤَدِّي حَقَّھَا إِلَّا أُقْعِدَ لَھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَطَؤُہُ ذَاتُ الظِّلْفِ بِظِلْفِھَا،وَتَنْطَحُہُ ذَاتُ الْقَرْنِ بِقَرْنِھَا،لَیْسَ فِیھَا یَوْمَئِذٍ جَمَّائُ وَلَا مَکْسُورَۃُ الْقَرْنِ،قُلْنَا:یَارَسُولَ اللّٰہِ!وَمَا حَقُّھَا؟ قَالَ:إِطْرَاقُ فَحْلِھَا وَإِعَارَۃُ دَلْوِھَا وَمَنِیحَتُھَا وَخَلْبُھَا عَلَی الْمَائِ وَحَمْلٌ عَلَیْھَا فِي سَبِیلِ اللّٰہِ))
’’اونٹ،گائے اور بکری والا اگر ان کے حقوق ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن ایک صاف میدان میں اسے بٹھا دیا جائے گا،کھر والا جانور اسے اپنے کھر سے اور سینگ والا اپنے سینگ سے مارے گا۔اس دن ان میں کوئی بے سینگ اور ٹوٹے سینگ والا نہیں ہو گا۔‘‘ ہم نے کہا:اے اللہ کے رسول!اور ان کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ان کا نر چڑھانا،ان کا ڈول عاریتًا دینا،ان کا فائدہ عطیہ کرنا،تالاب پر دودھ دوہنا اور اللہ کے راستہ میں ان پر سواری کرنا(یا کرنے دینا۔)‘‘[4]
٭ اس کے ساتھ ساتھ مالک،امین اور گواہوں کے دستخط بھی ہو جائیں تو اقرب الی الصواب ہے۔واللہ اعلم(ع،ر)
|