Maktaba Wahhabi

549 - 692
٭ عاریت کا حکم: عام حالات میں عاریتًا دینا مستحب ہے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ﴾’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔‘‘[1] اور اگر ایک انسان مجبور ہے اور اسے شدید ضرورت لاحق ہے اور مالک اس چیز سے بے نیاز ہے،اسے اس کی ضرورت نہیں،ایسے میں عاریتًا دینا لازم اور واجب ہو جاتا ہے۔ ٭ عاریت کے احکام: 1: مباح چیزیں عاریتًا دی جاسکتی ہیں۔بنا بریں لونڈی مجامعت کے لیے عاریتًا نہیں دی جا سکتی اور نہ مسلمان کو کافر کی خدمت کے لیے دیا جا سکتا ہے اور اسی طرح خوشبو اور کپڑا کسی حرام کام کے لیے نہ دیا جائے،اس لیے کہ گناہ پر تعاون کرنا حرام ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ ’’اور گناہ اور ظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو۔‘‘[2] 2: اگر ’’عاریت‘‘ دینے والا عاریتاً دیتے وقت حفاظت سے رکھنے کی شرط لگاتا ہے اور چیز عاریتاً لینے والے نے اسے تلف کر دیا ہے تو وہ ’’ضامن‘‘ ہو گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اَلْمُسْلِمُونَ عَلٰی شُرُوطِھِمْ‘ ’’مسلمانوں پر اپنی شرطوں کی پابندی لازم ہے۔‘‘[3] اور فرمایا:’طَعَامٌ بِطَعَامٍ،وَإِنَائٌ بِإِنَائٍ‘ ’’طعام کے بدلے طعام اور برتن کے بدلے برتن ہے۔‘‘[4] اگر عاریتاً لینے والے کی کوتاہی یا تعدی سے چیز ضائع ہوئی ہے تو اسے اس کی مثل یا قیمت دینی لازم ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’عَلَی الْیَدِمَا أَخَذَتْ حَتّٰی تُؤَدِّيَ‘ ’’انسان جو چیز لیتا ہے،اس کی ادائیگی اسی پر ہے۔‘‘[5] 3: ’’عاریت‘‘ واپس کرتے وقت بار برداری وغیرہ کا جو خرچ ہے وہ ’’عاریتًا لینے والے‘‘پر ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’عَلَی الْیَدِ مَا أَخَذَتْ حَتّٰی تُؤَدِّيَ‘ ’’انسان جو چیز لیتا ہے،اس کی ادائیگی اسی پر ہے۔‘‘[6]
Flag Counter