Maktaba Wahhabi

562 - 692
12: جو شخص اپنی وصیت میں کہتا ہے کہ میں فلاں کی اولاد کے لیے اتنی وصیت کر رہا ہوں تو اس فلاں کی اولاد میں لڑکے،لڑکیاں برابر برابر اس وصیت میں حصہ دار ہوں گے،اس لیے کہ لفظ ولدمیں لڑکا اور لڑکی دونوں شامل ہیں،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ ’’اللہ تمھاری اولاد کے لیے تمھیں وصیت کرتا ہے،لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔‘‘[1] یعنی آیت کریمہ میں اولاد کا اطلاق بیٹے،بیٹیوں سب پر ہوا ہے۔ ہاں،اگر وہ یوں کہتا ہے کہ فلاں کے بیٹوں کو اتنا حصہ دیا جائے تو یہ وصیت صرف بیٹوں کے لیے ہوگی،بیٹیوں کے لیے نہیں،اسی طرح اگر وصیت میں بیٹیوں کی صراحت کرے تو وصیت فقط بیٹیوں کے لیے ہو گی۔ 13: جو شخص وصیت لکھ دیتا ہے اور اس پر گواہ نہیں بناتا تو پھر بھی وہ نافذ ہو گی،ا لّا یہ کہ اس سے رجوع ثابت ہو جائے تو وصیت باطل قرار پائے گی اور نافذ نہیں ہو گی۔ ٭ وصیت کا تحریری نمونہ: بسم اللہ اور اللہ کی حمدوثنا کے بعد:’’یہ فلاں بن فلاں وصیت کر رہا ہے،اس کے گواہوں کو علم ہے کہ صحتِ عقل اور ثبوت فہم کی حالت میں یہ وصیت ہوئی ہے۔’ ’صاحب وصیت‘‘ گواہی دیتا ہے کہ ایک اللہ ہی معبود برحق ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور جنت حق ہے،دوزخ حق ہے اور قیامت قریب آنے والی ہے اور اللہ قبر والوں کو اٹھائے گا۔(وصیت کرنے والا)اپنی اولاد،اہل و عیال اور قرابت داروں کو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اس کی اطاعت کی وصیت کرتا ہے اور یہ کہ شریعت اسلامیہ کا التزام کیا جائے اور اقامت دین کا فریضہ سر انجام دیا جائے اور یہ کہ انھیں موت اسلام پر آئے اور یہ بندہ(اللہ اس کو معاف کرے اور اس کے ساتھ نرمی فرمائے)وصیت کرتا ہے کہ لازماً آنے والی موت جو اللہ نے مخلوق پر لکھ دی ہے،کے بعد اس کے ترکہ میں سے پہلے تجہیزوتکفین اور دفن کا انتظام کیا جائے،پھر اس کے ذمے جو قرضہ جات ہوں ان کی ادائیگی کی جائے،جن کا اقرار ان گواہوں کے سامنے کر رہا ہوں جس کی تفصیل یہ ہے:اور پھر کل مال کی تہائی میں سے فلاں کو اتنا دیا جائے اور جو باقی بچے وہ ورثاء میں اللہ تعالیٰ کے’’قانون وراثت‘‘کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔ اور یہ بھی وصیت کرتا ہوں کہ اس کے چھوٹے بچوں،جو کہ فلاں فلاں ہیں کی ضروری نگہداشت کی جائے اور ان کے ’’حصصْ وراثت‘‘ کا ان کے بالغ اور صاحب رشد ہونے تک تحفظ کیا جائے۔یہ تمام ’’وصیت‘‘ فلاں کو کی جا رہی ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کے بعد اس پر اعتماد اس لیے کر رہا ہے کہ اس کی دیانت،عدالت اور کفایت کا یہ وصیت کرنے والا اقرار و اعتراف کرتا ہے اور اس کو یہ بھی اختیار دیتا ہے کہ انھیں اپنی پسند کے مطابق کسی اور کے سپرد کر دے یا وصیت
Flag Counter