Maktaba Wahhabi

569 - 692
یہ مالک کو واپس ہو جائے گی۔‘‘[1] ٭ عمرٰی کے احکام: 1: اگر علی الاطلاق بایں الفاظ ہبہ کرتا ہے کہ میں یہ گھر تجھے ’’عمرٰی‘‘کے طور پر دیتا ہوں تو یہ گھر اس شخص کا ہو گا اور اس کے بعد وراثت میں تقسیم ہو جائے گا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’اَلْعُمْرٰی لِمَنْ وُّھِبَتْ لَہُ‘ ’’عمرٰی اس کے لیے ہے،جسے ’’ہبہ‘‘ کیا گیا۔‘‘ [2] اور اگر کہتا ہے:یہ تیرے لیے اور تیرے بعد تیری اولاد کے لیے ہے تو بھی اس کا مالک وہی شخص ہے اور اس کے بعد اس کے ورثاء اس کے مالک ہیں ’’واہب‘‘کو کسی صورت وہ واپس نہیں ملے گا،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے: ((أَیُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرٰی لَہُ وَلِعَقِبِہِ،فَإِنَّھَا لِلَّذِي أُعْطِیَھَا لَا تَرْجِعُ إِلَی الَّذِي أَعْطَاھَا،لِأَنَّہُ أَعْطٰی عَطَائً وَّقَعَتْ فِیہِ الْمَوَارِیثُ)) ’’جس شخص نے کسی شخص اور اس کی اولاد کے لیے عمرٰی دیا تو وہ انھی کا ہے جو دینے والے کو واپس نہیں ہوتا،اس لیے کہ اس نے ایک ایسا عطیہ دیا ہے جس میں وراثت کا نفاذ ہو گیا ہے۔‘‘[3] 2: اگر’ ’ عمرٰی‘‘ میں کہا جائے:جب تک تو زندہ ہے،یہ تیرے لیے ہے اور جب تو مر جائے گا تو یہ مجھے یا میری اولاد کو واپس ہو جائے گا تو’ ’موہوب لہ‘‘ کی وفات کے بعد یہ عطیہ واپس ہو جائے گا،اس لیے کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ((إِنَّمَا الْعُمْرَی الَّتِي أَجَازَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ یَّقُولَ:ھِيَ لَکَ وَلِعَقِبِکَ،فَأَمَّا إِذَا قَالَ ھِيَ لَکَ مَا عِشْتَ،فَإِنَّھَا تَرْجِعُ إِلٰی صَاحِبِھَا)) ’’عمرٰی‘‘ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ قرار دیا ہے،یہ ہے کہ’ ’ہبہ‘‘ کرنے والا کہے کہ یہ چیز میں تجھے اور تیرے وارثوں کے لیے دیتا ہوں۔پس اگر یوں کہے جب تک تو زندہ ہے،میں یہ چیز تجھے دیتا ہوں تو یہ مالک کو واپس ہو جائے گا۔‘‘[4] رقبیٰ کا بیان ٭ رقبیٰ کی تعریف: ایک مسلمان اپنے بھائی کو یہ کہے کہ’ ’اگر میں تجھ سے پہلے فوت ہو گیا تو میرا گھر یا باغ تیرا ہو گیا اور اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہوا تو تیرا گھر میرا ہو گا‘‘یا یوں کہے کہ’ ’میری یہ چیز تیری زندگی تک تیری ہے،اگر تو مجھ سے پہلے مر گیا تو مجھے واپس ہو جائے گی،اگر میں پہلے مر گیا تو یہ تیرے پاس ہی رہے گی۔
Flag Counter