Maktaba Wahhabi

571 - 692
نہیں کر سکو گے تو ایک ہی یا جو تمھاری مملوکہ لونڈیاں ہیں۔‘‘[1] نیز فرمایا:﴿وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ﴾ ’’اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں،نیک غلام اور لونڈیوں کے(باہم)نکاح کر دیا کرو۔‘‘[2] البتہ جو شخص گھریلو اخراجات برداشت کر سکتا ہے اور اسے حرام(زنا)میں واقع ہونے کا بھی اندیشہ ہے تو اس کے لیے نکاح کرنا فرض ہے اور اگر زنا کا خطرہ محسوس نہیں کرتا تو اس کے لیے مسنون ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ!مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ،فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ)) ’’اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہے،وہ نکاح کر لے،یہ نگاہ کو بہت نیچی رکھے گا اور شرم گاہ کی نہایت حفاظت کا باعث ہو گا۔‘‘[3] اور فرمایا:((تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ [یَوْمَ الْقِیَامَۃِ])) ’’زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی کے ساتھ نکاح کرو،قیامت کے دن میں اقوام عالم کے ساتھ تمھاری کثرت پر فخر کروں گا۔‘‘[4] ٭ نکاح کی حکمت: 1: نکاح کے نتیجے میں نسل انسانی کی بقا۔ 2: اپنی عزت کی حفاظت اور فطری خواہش پوری کرنے کے لیے مرد اور عورت کا رشتۂ ازدواج۔ 3: نسل انسانی کی تربیت اور زندگی کی بقا کے لیے دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون۔ 4: مودت و محبت کے دائرہ میں مرد اور عورت کا باہم تعلق،جس سے دونوں کے حقوق کا تحفظ اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا حاصل ہونا۔ ٭ نکاح کے ارکان: نکاح کی صحت و درستی کے لیے چار ارکان کا ہونا ضروری ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: (۱) ولی (۲) گواہ (۳) عقد نکاح کے الفاظ (۴) حق مہر 1:ولی: لڑکی کا باپ پھر سب سے قریبی(عصبہ)عزیز اگر یہ نہ ہوں تو پھرحاکم وقت ولی ہوتا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
Flag Counter