Maktaba Wahhabi

573 - 692
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’لَا نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَّشَاھِدَيْ عَدْلٍ‘ ’’ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہے۔‘‘[1] ٭ گواہوں کے احکام: ٭ دو گواہ ہونے چاہئیں،زیادہ جتنے بھی ہوں اچھا ہے۔ ٭ اور دونوں عادل ہوں،یعنی کبیرہ گناہوں کے مرتکب نہ ہوں اور اکثر چھوٹے گناہوں سے اجتناب کرتے ہوں۔زانی،شرابی اور سود کھانے والا شادی کا گواہ نہیں بن سکتا،اس لیے کہ قرآن پاک کی آیت بالا اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں گواہوں کا عادل ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دور میں عدالت و ثقاہت کی صفات کے حاملین لوگ بہت کم ہیں،لہٰذا زیادہ سے زیادہ گواہ مجلس نکاح میں موجود ہونے چاہئیں۔ 3:عقد نکاح کے الفاظ: ہونے والا خاوند جب یہ کہتا ہے کہ اپنی بیٹی یا جس بچی کے میرے ساتھ نکاح کی آپ کو وصیت کی گئی ہے،آپ اسے میرے نکاح میں دے دیں اور ولی کہے:میں نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا یا میں نے فلاں بیٹی کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا اور خاوند کہہ دے ’’میں نے قبول کر لیا ‘‘تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب یہی گفتگو خاوند کی طرف سے اس کا وکیل کرے(یا ولی گفتگو کی ابتدا کرے نکاح ہو جائے گا۔) ٭ عقدِ نکاح کے احکام: 1: شوہرآزادی(حُر ہونے میں)،اخلاق و دین اور امانت میں بیوی کا کفو،یعنی ہم مرتبہ ہونا چاہیے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((إِذَا جَائَ کُمْ مَّنْ تَرْضَوْنَ دِینَہُ وَخُلُقَہُ فَأَنْکِحُوہُ،إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ)) ’’جب تمھارے پاس ایک ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے اخلاق اور دین کو تم پسند کرتے ہو،اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کر دو،اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد ہو گا۔‘‘[2] 2: ’’عقد نکاح‘‘ میں مرد جسے چاہے اپنا وکیل بنائے۔عورت کا وکیل اس کا ولی ہے،جو اس کی طرف سے عقد نکاح کرے گا۔ 3: حق مہر::عورت کو حلال بنانے کے لیے خاوند جو مال دیتا ہے،وہ ’’مہر‘‘ ہے،یہ دینا واجب اور فرض ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً﴾’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کرو۔‘‘[3] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِّنْ حَدِیدٍ‘ ’’مہر کے لیے کچھ تلاش کر،چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔‘‘[4]
Flag Counter