Maktaba Wahhabi

574 - 692
٭ مہر کے احکام: 1: ’’مہر‘‘ میں تخفیف مستحب ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’أَعْظَمُ النِّسَائِ بَرَکَۃً أَیْسَرُھُنَّ مُؤْنَۃً‘ ’’وہ عورت سب سے زیادہ بابرکت ہے،جس کے حصول کے اخراجات آسان ہوں۔‘‘[1] اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختران اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے مہر میں عموماً چار سو اسی درہم ہوتے تھے۔اصحاب سنن نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی نے صحیح کہا ہے۔[2] 2: عقد کے وقت مہر کا تذکرہ کرنا مسنون ہے۔ 3: چوتھائی دینار٭سے زائد مالیت کی مباح چیز مہر مقرر ہو سکتا ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِّنْ حَدِیدٍ‘ ’’مہر کے لیے تلاش کر،چاہے لوہے کی انگوٹھی ہو۔‘‘[3] 4: مہر عقد نکاح کے ساتھ ہی ادا کر دیا جائے تو بھی صحیح ہے اور اس کے کل یا کچھ حصے کی تاخیر بھی جائز ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً﴾’’اور اگر تم انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دیتے ہو اور ان کے لیے ’’مہر‘‘مقرر کر چکے ہو۔(ابھی دیا نہیں،دینا ہے‘‘)[4] البتہ جماع سے پہلے تحفے کے طور پر کوئی چیز دینا مستحب ہے۔سنن ابو داود اور سنن نسائی میں ہے: ((لَمَّا تَزَوَّجَ عَلِيٌّ فَاطِمَۃَ قَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم:أَعْطِھَا شَیْئًا قَالَ:مَا عِنْدِي شَيْئٌ قَالَ:أَیْنَ دِرْعُکَ الْحُطَمِیَّۃُ؟ [قُلْتُ:ھِيَ عِنْدِي،قَالَ:فَأَعْطِھَا إِیَّاھَا])) ’’جب علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ سے شادی کی تو نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ(مجامعت سے پہلے)فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ دے۔‘‘ انھوں نے کہا:میرے پاس کچھ نہیں ہے۔آپ نے فرمایا:’’تیری حطمی زرہ کہاں ہے؟‘‘ انھوں ٭ چوتھائی دینار کی تحدید کسی نص سے ثابت نہیں ہے۔مؤلف کی ذکر کردہ حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس صحابی کے پاس جس کو لوہے کی انگوٹھی لانے کا حکم دیا تھا،لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں تھی اور قرآن پاک کی چند سورتیں پڑھانے پر اس کا عقد نکاح ہوا تھا۔(الاثری)
Flag Counter