Maktaba Wahhabi

602 - 692
4: نابالغ لڑکی کی طرف سے باپ خلع قبول کر سکتا ہے،بشرطیکہ بچی کے نقصان کا اندیشہ ہو،اس لیے کہ وہ خود اس وقت اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتی۔ ایلا کا بیان: ٭ ایلا کی تعریف: کسی مرد کا اللہ کی قسم اٹھا کر کہنا کہ میں اپنی عورت کے ساتھ اتنی مدت وطی(جماع)نہیں کروں گاجبکہ وہ مدت چار ماہ سے زائد ہو۔ ٭ ایلا کا حکم: چار ماہ سے کم کا ایلا عورت کی سرزنش کے طور پر جائز ہے،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ’’اور ان لوگوں کے لیے جو اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں،چار ماہ کا انتظار ہے(،پھر)اگر(اس دوران)رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایک ماہ مکمل ایلا کیا تھا۔اگر ایلا میں تادیب(ادب سکھلانا)مطلوب نہیں بلکہ عورت کو محض ایذا دینا مقصود ہے تو یہ حرام ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ‘’’کسی کوابتدائً نقصان پہنچانا اور مقابلتًا نقصان پہنچاناجائز نہیں ہے۔‘‘[2] ٭ ایلا کے احکام: 1: ایلا کی مدت کو اگر چار ماہ گزر جائیں اور اس دوران میں مرد نے جماع نہیں کیا اور عورت حاکم کے پاس مطالبہ کرتی ہے تو پھر خاوند یا تو ایلا سے رجوع کرے گا یا طلاق دے گا،اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے:﴿فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴿٢٢٦﴾وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ ’’اگر وہ رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا،مہربان ہے اور اگر طلاق کا عزم کر لیں تو اللہ سننے والا،جاننے والا ہے۔‘‘[3] اور ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَۃُ أَشْھُرٍ یُّوقَفُ حَتّٰی یُطَلِّقَ‘’’جب چار ماہ گزر جائیں تو مرد کو پابند سلاسل(قید)کیا جائے یہاں تک کہ طلاق دے۔‘‘[4] 2: چار ماہ گزرنے پر پابند کرنے کے باوجود اگر طلاق نہیں دیتا تو ’’حاکم وقت‘‘ عورت کے ضرر کو دور کرنے کے لیے طلاق کی ڈگری جاری کر دے۔ 3: ’’ایلا‘‘ کے نتیجے میں مطلقہ عورت پر طلاق کی عدت(تین حیض)ہے’’استبرائے رحم‘‘ کے لیے ایک ماہواری کا انتظار کرنا کافی نہیں ہے،اس لیے کہ یہ عدت صرف ’’استبرائے رحم‘‘ کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا حکم طلاق والا ہے۔
Flag Counter