Maktaba Wahhabi

620 - 692
’’قاتل کو(مقتول کی جائیدادسے)کچھ نہیں ملتا۔‘‘[1] ٭ غلام ہونا: غلام نہ خود وارث ہوتا ہے اور نہ اس سے میراث لی جاتی ہے،چاہے مکمل غلام ہو یا ناقص،مثلاً:مکاتب،٭ ام ولد،اور وہ غلام جس کا بعض حصہ آزادہو،اس لیے کہ لفظ ’’رقیق‘‘ کا اطلاق مذکورہ بالا تمام غلاموں پر ہوتا ہے،البتہ بعض علماء نے مؤخر الذکر(ناقص غلام)کو مستثنیٰ قرار دیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ اس کا جتنا حصہ آزاد ہو چکا ہے،وہ اسی کے مطابق وارث بنے اور بنائے گا۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس غلام کے بارے میں روایت کرتے ہیں،جس کا کچھ حصہ آزاد ہو چکا ہو۔ آپ نے فرمایا:((إِذَا أَصَابَ الْمُکَاتَبُ حَدًّا أَوْ وَرِثَ مِیرَاثًا یَّرِثُ عَلٰی قَدْرِ مَا عَتَقَ مِنْہُ)) ’’جب مکاتب کسی حد کو پہنچے(اس پر جنایت ہونے کی صورت میں مستحق دیت بن جائے)یا ترکے کا وارث بنے تو جس قدر آزاد ہو اس کے مطابق(دیت میں سے حصے کا مستحق اور میت کا)وارث بنے گا۔‘‘[2] ٭ زنا: حرام زادہ(زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ)اپنے باپ(زانی)کا وارث نہیں ہو گا اور نہ اس کا باپ اس کا وارث ہو گا،البتہ وہ اپنی ماں کا وارث ہو گا اور ماں اس کی وارث ہو گی باب(زانی)وارث نہیں بنے گا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَرُ‘ ’’اولاد صاحب بستر(نکاح کرنے والے)کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں(اس کے لیے محرومی ہے اور اسے رجم کیا جائے گا۔)‘‘[3] ٭ لعان: لعان بھی مانع وراثت ہے،چنانچہ لعان کرنے والے میاں بیوی کا یہ بچہ جس کو باپ نے اپنا تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے،باپ کا اور باپ اس بچے کا وارث نہیں ہو گا یاد رہے کہ اس کو ولد الزنا پر قیاس کیا جائے گا۔ ٭ مردہ پیدا ہونا: وضع حمل کے وقت جس بچے کے منہ سے آواز نہ نکلے اورنہ وہ کوئی حرکت کرے بلکہ مردہ پیدا ہو،وہ نہ تو خود وارث ہو گا اور نہ اس کا کوئی وارث بنے گا،اس لیے کہ وراثت کا تعلق زندگی کے وجود سے ہوتا ہے،جس کے ٭ وہ غلام جس نے اپنے مالک سے ایک مخصوص رقم کی بالاقساط ادائیگی کے عوض آزادی کا تحریری معاہدہ کر رکھا ہو بعد میں اگر وہ یکمشت ادائیگی کا بندوبست کر لے تو بھی درست ہے ورنہ جس قدر وہ رقم ادا کر چکا ہے اس قدر وہ آزاد ہے اور جتنی رقم اس کے ذمہ ہے اس قدر وہ غلام ہے،واللہ اعلم(ع،ر)
Flag Counter