Maktaba Wahhabi

622 - 692
دادا اور مادری بھائی وارث نہیں ہوتے اور بیٹا بھائی کے لیے حاجب ہے اور بھائی چچا کو محروم کر دیتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔ اگر مذکورہ بالا تمام رشتہ دار ایک ہی ترکہ میں اکٹھے ہو جائیں تو ان میں سے صرف تین وارث ہوں گے: (۱)خاوند۔ (۲)بیٹا۔(۳)باپ(باقی ان تینوں کی وجہ سے محروم ہوں گے) ٭ وارث خواتین: خواتین میں تین قسم کی عورتیں وارث ہوتی ہیں: (۱)یوی۔ (۲)آزاد کرنے والی مالکہ۔(۳)قرابت دار عورتیں اور ان کی تین قسمیں ہیں: اصول:یعنی ماں،دادی اور نانی۔ فروع:یعنی بیٹی،پوتی اور نیچے تک(پڑپوتی وغیرہ۔) حاشیہ قریبہ:بہن مطلقا حاشیہ قریبہ ہے خواہ حقیقی ہو،پدری ہو یا مادری۔ تنبیہ:پھوپھی،خالہ،نواسی اور اس کی اولاد،بھتیجی اور چچا زاد بہن ذوی الفروض اور عصبہ نہ ہونے کی و جہ وارث نہیں ہوتیں البتہ جب ذوی الفروض اور عصبہ میں سے کوئی بھی نہ ہوں تو یہ لوگ ذوی الارحام ہونے کی وجہ سے وارث قرار پائیں گے۔ مقررہ حصے کا بیان: قرآن مجید کی سورئہ نساء میں چھ مقررہ حصوں کا ذکر ہوا ہے،جو کہ یہ ہیں:٭ نصف 1/2کل مال کے دو حصوں میں ایک۔پانچ افراد اس کے مستحق ہوتے ہیں: 1 خاوند:اگر مرنے والی بیوی کی اولاد یااولاد کی اولاد نہ ہو،برابر ہے کہ یہ اولادمرد ہوں یا خواتین۔ 2 بیٹی:جب اکیلی ہو،اس کے ساتھ کوئی اور بیٹا یا بیٹی نہ ہو۔ 3 پوتی:یہ صرف اسی صورت میں نصف حصہ لے گی جب یہ اکیلی ہو۔ 4 حقیقی بہن:جبکہ اس کے ساتھ میت کا بھائی،باپ،بیٹا اور پوتا نہ ہو۔ 5 پدری بہن:جبکہ وہ اکیلی ہو اور اس کے ساتھ،بھائی،باپ،بیٹا اور پوتا نہ ہو۔ ٭ ربع(چوتھائی1/4)مال کے کل چار حصوں میں کوئی ایک حصہ: دو افراد اس کے مستحق ہیں: 1: خاوند:اگر مرنے والی بیوی کی اولاد یا اولاد کی اولاد ہو،برابر ہے کہ وہ بچے ہوں یا بچیاں،پوتے ہوں یا پوتیاں۔بیوی کی اولاد اس خاوند سے ہو یا سابقہ خاوند سے۔ 2: بیوی:اگر مرنے والے خاوند کی کسی بھی بیوی سے اولاد یا اولاد کی اولاد نہ ہو،برابر ہے کہ وہ مرد ہوں یا خواتین۔ ٭ ثمن(آٹھواں حصہ1/8)مال کے کل آٹھ حصوں میں سے ایک: اس کا صرف ایک فرد مستحق ہوتا ہے اور وہ بیوی ہے،تاہم یہ اس وقت ثمن لیتی ہے جب خاوند کی اولاد ہو،چاہے اس بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے یا اولاد کی اولاد ہو،برابر ہے کہ وہ مرد ہوں یا خواتین۔
Flag Counter