Maktaba Wahhabi

64 - 692
’’کسی بندے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کہے کہ ’’میں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)یونس بن متّٰی سے بہتر ہوں۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات آسمانوں پر انبیاء میں سے حضرت یحییٰ،عیسیٰ،یوسف،ادریس،ہارون،موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات کی اور واپسی پر ان کے بعض احوال اور بیت المقدس میں ان کی امامت کرانے کا تذکرہ فرمایا۔[2] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:((إِنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ دَاوُدَ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ)) ’’اللہ تعالیٰ کے نبی داود علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔‘‘[3] 3:انسانوں میں سے کروڑوں مسلمان اور دیگر لوگ،یعنی یہود و نصاری اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء و رسل علیہم السلام کو مانتے اور تصدیق کرتے ہیں کہ وہ کامل انسان تھے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انھیں اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چنا تھا۔ عقلی دلائل: 1: اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمتِ کاملہ کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی طرف رسول بھیجے تاکہ وہ اپنے رب کی پہچان کرے،اپنے انسانی کمالات تک رسائی حاصل کر سکے اور اس طرح دنیا و آخرت کی سعادتوں سے بہرہ ور ہو۔ 2: اللہ جل جلالہ نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴿٥٦﴾ ’’اورمیں نے انسانوں اور جنوں کو اس لیے پیدا کیا،تاکہ وہ میری ہی عبادت کریں۔‘‘[4] نظامِ عبادت واطاعت کا تقاضا ہے کہ عوام کی طرف رسول بھیجے جائیں تاکہ بندے معلوم کر سکیں کہ انھیں کس طرح عبادت کرنی اور کیسی اطاعت سر انجام دینی ہے کیونکہ اسی اہم مقصد کے لیے ان کی تخلیق ہوئی ہے۔ 3: اطاعت کے نتیجے میں نفس کی تطہیر اور نافرمانی کے نتیجے میں نفس کی خباثت مرتب ہوتی ہے اور اسی پر جزا وسزا کا نظام ترتیب پاتا ہے،اگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت نہ ہوتی تو قیامت کے دن لوگ کہتے:’’اے اللہ!ہمیں تو تیری اطاعت کا پتہ ہی نہیں تھا کہ کیسے ہوتی ہے اور ہم نافرمانی ومعصیت کو نہیں جانتے تھے کہ اس سے احتراز کرتے۔تیرے ہاں ظلم نہیں ہے،لہٰذا ہمیں آج سزا نہ دے۔‘‘ چنانچہ اتمامِ حجت کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغام پہنچانے والے مقرر کر دیے۔ارشادِ عالی ہے:﴿رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴿١٦٥﴾
Flag Counter