Maktaba Wahhabi

671 - 692
((لَا یُقْتَلُ وَالِدٌ بِوَلَدِہِ))’’اولاد کے بدلے میں والد کو قتل نہ کیا جائے۔‘‘[1] ٭ قصاص لینے کی شرائط: قصاص درج ذیل شروط کے پورا ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے: 1: جس کے لیے قصاص لینا ہے،اس کا مکلف،یعنی عاقل و بالغ ہونا ضروری ہے،اگر وہ نابالغ یا مجنون ہے تو مجرم کو پابند رکھا جائے گا کہ بچے کے بالغ ہونے یا مجنون کے افاقے کے بعد وہ چاہیں تو قصاص لیں یا دیت قبول کریں یا معاف کر دیں،صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی بات مروی ہے۔ 2: خون کے مستحقین،یعنی مقتول کے ورثاء قصاص لینے پر متفق ہوں،اگر کسی ایک نے معاف کر دیا تو پھر قصاص نہیں ہو گا اور جس نے قصاص معاف نہیں کیا،دیت میں سے اس کو بھی حصہ ملے گا۔ 3: قصاص لینے میں ظلم وزیادتی سے بچا جائے،یعنی اسی طرح کا زخم لگایا جائے جس طرح کا مجرم نے لگایا تھا اور قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل نہ کیا جائے،نیز قتل کرنے والی حاملہ عورت کو قصاص میں وضع حمل اور مدت رضاعت سے پہلے قتل نہ کیا جائے کیونکہ ایک عورت نے کسی عورت کو عمدًا قتل کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَا تُقْتَلُ حَتّٰی تَضَعَ مَا فِي بَطْنِھَا إِنْ کَانَتْ حَامِلًا،وَحَتّٰی تُکَفِّلَ وَلَدَھَا))’’اگر یہ حاملہ ہے تو ’’وضع حمل‘‘ اور اپنے بچے کی کفالت سے پہلے اسے قتل نہ کیا جائے۔‘‘[2] 4: قصاص سلطان یا اس کے نائب کی موجودگی میں ہونا چاہیے تاکہ ظلم و تعدی نہ ہو سکے۔[3] 5: قصاص تیز دھار آلہ سے لیا جائے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّیْفِ))’’قصاص صرف تلوار سے لیا جاتا ہے۔‘‘٭ قصاص،دیت اور معاف کرنے میں اختیار: مسلمان کے لیے قصاص لینا ثابت ہو جائے تو اسے اختیار ہے کہ قصاص لے یا دیت قبول کر لے یا پھر معاف کر دے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:﴿فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ﴾ ’’جس(قاتل)کو اس کے بھائی(مقتول کے وارث)کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معروف ٭ یاد رہے کہ مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ اسلامی عدالت کرتی ہے وہی کسی قصاص یا حد کے نفاذ کی مجاز ہے اگر کوئی شخص از خود قصاص لیتا یا کوئی حد جاری کرتا ہے تو وہ مجرم ہو گا۔واللہ اعلم۔(محمد عبدالجبار)
Flag Counter