Maktaba Wahhabi

680 - 692
اسے قتل کیا ہے اور لوگوں میں ان کی عداوت بھی معروف ہے جس سے اس ظن کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ شخص اس عداوت کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔یا قاتل اور مقتول کے مابین عداوت معروف نہیں ہے،البتہ ایک گواہ موجود ہے جو قتل کی شہادت دیتا ہے چونکہ ’’دعویٰ دم‘‘(اور نتیجتاًمستحق دم بننے)کے لیے دو گواہ ضروری ہیں لیکن ایک گواہ سے وہ شخص ملوث ضرور قرار پاتا ہے جس کے نتیجے میں ’’قسامت‘‘متعین ہو گی۔اب مقتول کے مرد ورثاء(عورتیں نہیں)پچاس قسموں کے ساتھ کسی ایک شخص پر خون کا اثبات کریں گے(قسمیں اٹھائیں گے کہ فلاں شخص ہی قاتل ہے)اور ان پر قسموں کی تقسیم وراثت کے انداز پر ہو گی۔حلف کے بعد ’’مدعیٰ علیہ‘‘پر خون ثابت ہو جائے گا اور اس سے قصاص لیا جائے گا یا اس کے عاقلہ دیت ادا کریں گے۔اگر مقتول کے کچھ ورثاء حلف اٹھانے سے انکار کر دیں تو ان سب کا استحقاق ختم ہو جائے گا اور پھر مدعیٰ علیہ پچاس حلف دے کر خون سے بری ہو جائے گا لیکن اگر مدعیٰ علیہ کے خلاف کوئی قتل کی وجہ موجود نہیں ہے،جس سے وہ ملوث ہوتا نظر آتا ہو تو ایک حلف کے ذریعے سے ہی وہ بری قرار پائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قتل کا قضیہ پیش ہوا تو آپ نے اس میں ’ ’قسامت‘‘کا فیصلہ دیا اور’’اولیائے دم‘‘(مقتول کے ورثاء)کو فرمایا: ((أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَکُمْ أَوْصَاحِبَکُمْ؟))’’کیا تم حلف اٹھا کر اپنے صاحب یا قاتل(کے خون)کے مستحق بن سکتے ہو۔‘‘ مقتول کے ورثاء نے عرض کی کہ ہم جس واقعے میں موجود نہیں تھے اس پر حلف کس طرح دے سکتے ہیں تو آپ نے فرمایا:((فَتُبْرِئُکُمْ یَھُودُ بِخَمْسِینَ)) ’’پھر پچاس قسموں کے ساتھ یہودی(جن پر قتل کا الزام ہے)تم سے(تمھارے قتل کے الزام سے)بری ہوجائیں گے۔‘‘ اس پر ورثاء نے جواب دیا:یہ تو کافر ہیں ان کی قسم کا ہم کیسے اعتبار کریں،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس(مقتول)کی دیت خود(بیت المال سے)ادا کر دی۔[1] باب:11 حدود کا بیان حد خمر: ٭ حد کی تعریف: اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جن کاموں کو حرام قرار دیا ہے ان سے لوگوں کو ضرب(مار)یا قتل کے ذریعے سے باز رکھنا ’’حد‘‘ کہلاتا ہے اور حدود اللہ سے مراد وہ محارم(حرام کردہ چیزیں)ہیں جن سے اجتناب
Flag Counter