Maktaba Wahhabi

688 - 692
آپ نے چور کے ایمان کی نفی کی ہے جب وہ چوری کرتا ہے،فرمایا:((لَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِینَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ))’’چور چوری کرتے وقت مومن نہیں ہوتا۔‘‘[1] اور آپ نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ(ہاتھ کاٹنا)اللہ کی حدود میں سے ایک حد ہے جس کو بلا امتیاز ہر ایک پر لاگو کیا جائے گا۔آپ فرماتے ہیں: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ!لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مَحُمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا)) ’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کر لیتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘[2] ٭ چوری کس طرح ثابت ہوتی ہے: ملزم خود اعتراف کر لے کہ اس نے چوری کی ہے مگر اس اعتراف کی بنیاد،مار کٹائی یا زجروتوبیخ پر نہ ہو بلکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار سے اعتراف کرے یا دو عادل گواہ موجود ہوں جو گواہی دیں کہ اس نے چوری کی ہے۔ اگر حد کی اقامت سے پہلے وہ اپنے اعتراف سے منحرف ہو جائے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا،البتہ چوری شدہ مال کی ضمانت اس پر ہو گی،نیز ایسی صورت میں مستحب یہی ہے کہ اسے انحراف کی تلقین کی جائے تاکہ اس کا ہاتھ بچ سکے،اس لیے کہ آپ کا فرمان ہے:((اِدْرَؤُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِینَ مَا اسْتَطَعْتُمْ))’’جس حد تک ہو سکے مسلمانوں سے(شبہات کی بنا پر)حدود ساقط کر دو۔‘‘[3] ٭ قطع ید کی شرطیں: 1: چور مکلف،عاقل اور بالغ ہو۔حدیث میں ہے کہ تین(اشخاص)مرفوع القلم ہیں جن میں مجنون اور نابالغ بھی ہیں۔[4] 2: چوری کرنے والا ’’مسروقہ مال‘‘ کے مالک کا والد،بیٹا،خاوند اور بیوی نہ ہو،اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک کے دوسرے کے مال میں حقوق ہوتے ہیں۔ 3: مسروقہ مال میں چور کی ملکیت کا شبہ نہ ہو،مثلاً:ملزم مقروض تھا اور اس نے مرتہن(جس کے پاس مقروض،قرض
Flag Counter