Maktaba Wahhabi

692 - 692
نے انھیں اسی انداز کی سزا دی تھی۔[1] مذکورہ سزاؤں میں سے امام کو اختیار ہے کہ جو چاہے نافذ کرے۔بعض علماء کہتے ہیں کہ ’’محاربین’’نے اگر قتل کیا ہے تو انھیں قتل کیا جائے،مال لوٹا ہے تو ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں اور علاقہ بدر کیا جائے اور اگر خون نہیں کیا اور مال نہیں لوٹا تو لوگوں کو ہراساں کرنے پر انھیں قید کی سزا دی جائے۔ 3: محاربین گرفتاری سے پہلے اگر محاربہ ترک کر کے تائب ہو جائیں اور خود کو حکومت کے سپرد کر دیں تو ان سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حق ساقط ہو جاتا ہے،البتہ حقوق العبادان پر باقی رہیں گے۔قتل کیے ہیں تو قصاص لیا جائے گا اور اموال لوٹے ہیں تو ان کے ضامن ہوں گے،الّا یہ کہ ان سے دیت لی جائے یا معاف کر دیا جائے۔یہ سب احکام اللہ کے دین میں نافذ ہیں۔ارشاد ربانی ہے:﴿إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ’’مگر تمھارے ان پر قدرت پانے(انھیں گرفتار کرنے)سے پہلے اگر وہ توبہ کر لیں تو جان لو کہ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘[2] یہ بھی جائز ہے کہ امام ان کی طرف سے دیت ادا کر دے یا لوگوں کو ان کے اموال کی ادائیگی کر دے اگر ان تائب شدہ محاربین کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اہل بغاوت کا بیان: ٭اہل بغاوت کون ہیں ؟: طاقت اور قوت کی مالک وہ جماعت جو کسی معقول تاویل و توجیہ کی بنیاد پر امام کی اطاعت سے نکل جائے،مثلاً:ان کے خیال میں امام کافر یا ظالم ہے اور اس بنیاد پر وہ اس کی اطاعت ترک کر دیں اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کریں۔ ٭ باغیوں کے احکام: 1: امام کی ذمہ داری ہے کہ ان کے ساتھ رابطہ قائم کرے،ان کے اعتراضات اور خروج(بغاوت)کے اسباب معلوم کرے اگر وہ امام یا دیگر کسی عامل(حاکم)کے ظلم و ستم کا تذکرہ کریں تو ان کی داد رسی کرنی چاہیے اگر کسی شبہ اور تاویل کی بنیاد پر بغاوت کر چکے ہیں تو امام ان کے شبہات زائل کرے اور حق کا دلائل کے ساتھ اثبات و اظہار کرے۔اس کے بعد اگر وہ حق کو اپنا لیتے ہیں تو ان کا رجوع قبول کیا جائے،تاہم اگر انکار کرتے ہیں تو جملہ مسلمان متفق ہو کر ان کے ساتھ لڑائی کریں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللّٰهِ﴾
Flag Counter