Maktaba Wahhabi

700 - 692
اور فرمایا:((اَلْقُضَاۃُ ثَلَاثَۃٌ:وَاحِدٌ فِي الْجَنَّۃِ،وَاثْنَانِ فِي النَّارِ،فَأَمَّا الَّذِي فِي الْجَنَّۃِ فَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضٰی بِہِ،وَرَجُلٌ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ فِي الْحُکْمِ فَھُوَ فِي النَّارِ،وَرَجُلٌ قَضٰی لِلنَّاسِ عَلٰی جَھْلٍ فَھُوَ فِي النَّارِ)) ’’قاضی تین قسم کے ہیں:ایک جنت میں اور دو جہنم میں ہوں گے:حق کی معرفت حاصل کر کے فیصلہ کرنے والا جنتی ہے اور جو حق دریافت ہونے کے باوجود فیصلے میں ظلم کرے،وہ جہنمی ہے اورجہالت پر(بغیر علم کے)لوگوں کے فیصلے کرنے والا بھی جہنمی ہے۔‘‘[1] اور آپ نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن سمرہ کو خطاب کرکے فرمایا:((لَا تَسْأَلِ الإِْمَارَۃَ فَإِنَّکَ إِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْھَا،وَإِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ مَّسْأَلَۃٍ وُّکِلْتَ إِلَیْھَا)) ’’امارت کا سوال نہ کرنا،بغیر سوال اگر تو امیر بنایا گیا تو اس پر تیری مدد کی جائے گی اور اگر مانگنے سے تجھے امارت ملی تو تم اسی کے سپرد کیے جاؤگے(اللہ کی مدد شامل حال نہیں ہو گی۔‘‘)[2] اور فرمایا:((إِنَّکُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَی الإِْمَارَۃِ وَسَتَکُونُ نَدَامَۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ،فَنِعْمَ الْمُرْضِعَۃُ وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَۃُ)) ’’عنقریب لوگ امیر بننے کی حرص کریں گے اور عنقریب یہ امارت قیامت کے دن ندامت کا باعث ہو گی کیونکہ دودھ پلانے والی اچھی اور چھڑوانے والی بری ہوتی ہے۔‘‘[3] ٭ مانگنے والے کو عہدۂ قضا نہ دیا جائے: منصب قضا پر اس شخص کو فائز نہ کیا جائے جو اس کا طلب گار یا حریص ہو،اس لیے کہ قضا ایک بھاری ذمے داری اور عظیم امانت ہے،لہٰذا وہی اس کا سوال کرے گا جو اس کی اہمیت نہیں سمجھتا اور کیا توقع ہے کہ وہ خیانت نہیں کرے گاجس کے نتیجے میں ناقابل برداشت حد تک دینی و اجتماعی خرابیاں پیدا ہو جائیں گی۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:((إِنَّا وَاللّٰہِ!لَا نُوَلِّي عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَہُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ))
Flag Counter