Maktaba Wahhabi

701 - 692
’’اللہ کی قسم!ہم یہ منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیں گے جو اس کا طلب گار یا حریص ہو۔‘‘[1] نیز فرمایا:((لَنْ۔أَوْ۔لَا نَسْتَعْمِلَ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ)) ’’ہم کسی ایسے شخص کو عامل ہرگز نہیں بنائیں گے،جو اس کی درخواست کرے۔‘‘[2] ٭ قاضی کے منصب قضا پر فائز ہونے کی شرائط: یہ منصب اسی شخص کو دیا جائے جو درج ذیل صفات کا حامل ہو: اسلام،عقل،بلوغت،آزادی،کتاب و سنت کا عالم،قضا کے بارے میں علم رکھنے والا،عدالت ظاہری اور حواس،مثلاً:کان،آنکھ [3] اور زبان کی سلامتی۔ ٭ قاضی کے اخلاق: اسے معاملات میں سخت ہونا چاہیے مگر درشتی کی حد تک نہیں۔نرم خو ضرور ہو مگر کمزوری سے مبرا ہو تاکہ کوئی اس سے غلط امید وابستہ نہ کرے اور صاحب حق اس سے خائف نہ ہو۔اسے حلیم الطبع ہونا چاہیے مگر اتنا نہیں کہ کم عقل،جھگڑالو اس پر چڑھ دوڑیں،حوصلہ مندی سے معاملہ فہمی کی استعداد رکھتا ہو،سمجھ دار اور ذکی ہو مگر خود پسند نہ ہو اور نہ ہی دوسروں کو حقیر جاننے والا ہو۔ اسے چاہیے کہ شہر کے درمیان ایک وسیع جگہ میں ’’مجلس قضا‘‘ منعقد کرے جو فریقین اور گواہوں کے لیے تنگ نہ ہو۔دیکھنے،بٹھانے اور آنے جانے میں فریقین کے مابین برابری کرے،اس بارے میں کسی فریق کو دوسرے پر فوقیت نہ دے۔قاضی کی مجلس میں فقہاء اور کتاب و سنت کے ماہرین حاضر ہوں تاکہ وہ مشکل مسائل میں ان سے مشورہ ومراجعت کرسکے۔ ٭ قاضی کن چیزوں سے اجتناب کرے: قاضی اپنے منصب کے تحفظ کے لیے بالخصوص امور ذیل کو ملحوظ رکھے: 1: غصہ،بیماری،بھوک،پیاس،گرمی،سردی،ملال اور طبیعت کی سستی و کاہلی کے وقت فیصلہ نہ کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((لَا یَقْضِیَنَّ حَکَمٌ بَیْنَ اثْنَیْنِ وَھُوَ غَضْبَانُ))’’کوئی حاکم فریقین میں غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔‘‘[4] 2: گواہوں کی موجودگی کے بغیر فیصلہ نہ کرے۔
Flag Counter