3: اپنے اور ان قرابت داروں کے متعلق جن کے لیے اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی،فیصلہ نہ کرے۔
4: فیصلے میں رشوت قبول نہ کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي))
’’رشوت دینے اور لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘[1]
5: منصب قضا سے پہلے جن لوگوں سے اسے تحائف نہیں ملتے تھے،اب ان سے وصول نہ کرے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَنِ اسْتَعْمَلْنَاہُ عَلٰی عَمَلٍ فَرَزَقْنَاہُ رِزْقًا،فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ غُلُولٌ))’’جسے ہم عامل بنائیں اور اسے تنخواہ دیں،اس کے علاوہ جو وہ لے گا خیانت ہو گی۔‘‘[2]
٭ قاضی کی ذمہ داریاں:
1: تمام دعوؤں اور جھگڑوں میں فریقین کے مابین فیصلہ کرے اور دلائل کے تضاد یا غیر واضح ہونے کی صورت میں فریقین کی رضامندی سے صلح کرائے۔
2: ظالموں اور بدکرداروں کو دبائے اور مظلوموں اور حق داروں کی مدد اور ان کی داد رسی کرے۔
3: خون اور زخموں میں ’ ’حدود‘‘ قائم کرے اور فیصلہ جات صادر کرے۔
4: نکاح،طلاق اور خرچہ جات کے بارے میں فیصلہ جات صادر کرے۔
5: یتیموں،دیوانوں،غیر حاضر اور ممنوع التصرف لوگوں(جنھیں مالی تصرف سے روک دیا گیا ہو)کے اموال کے تحفظ کے انتظامات کرائے۔
6: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے محکمے کا کنٹرول جس کے ذریعے اچھائی کا حکم جاری کیا جاتا ہے اور برائی سے روکا جاتا ہے۔
7: جمعہ اور عیدین کی امامت۔
٭ قاضی کس طرح فیصلہ کرے:
درج ذیل چار طریقوں سے قاضی لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور فیصلہ صادر کرے گا:
1: اقرار:’’مدعا علیہ‘‘ ’’مدعی‘‘ کا مطالبہ تسلیم کر لے تو ’’مدعی‘‘ کا حق ثابت ہو جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا))’’اگر وہ اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کر دینا۔‘‘[3]
2: دلیل:(ثبوت دعویٰ)یعنی گواہوں کی گواہی سے دعویٰ ثابت ہو جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|