Maktaba Wahhabi

709 - 692
یہ نافذ ہو جائے گی یا اس وصیت پر گواہ ثابت ہو جائیں کہ واقعی اس بیمار نے اتنی رقم اپنے فلاں بیٹے کو دینی ہے تو پھر اس کا ’’اقرار‘‘ صحیح قرار دیا جائے گا۔ باب:13 غلاموں کا بیان غلامی کے بارے میں: ٭ غلامی کی تعریف: کسی کی ملکیت میں آنا اور اس کا غلام ہونا ’’رق‘‘ کہلاتا ہے اور ’’رقیق‘‘ مملوک غلام کو کہتے ہیں۔یہ مادہ رقۃ سے ماخوذ ہے،جو غلظۃ(درشتی)کی ضد ہے،اس لیے کہ غلام بھی اپنے آقا کے لیے نرم ہوتا ہے اور مملوک ہونے کی وجہ سے سخت رویہ نہیں اپنا سکتا۔ ٭ غلامی کا حکم: اس کا حکم جواز ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ ’’اور جن کے تمھارے دائیں ہاتھ مالک ہیں۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ لَّطَمَ مَمْلُوکَہُ أَوْ ضَرَبَہُ فَکَفَّارَتُہُ أَنْ یُعْتِقَہُ)) ’’جو اپنے غلام کو تھپڑ رسید کرتا ہے یا مارتا ہے،اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کر دے۔‘‘[2] ٭ غلامی کی تاریخ اور اس کے اسباب: ہزاروں سالوں سے انسانوں میں غلامی کا وجود ملتا ہے اور دنیا کی قدیم ترین اقوام کے ہاں یہ موجود ہے جیسا کہ مصری،چینی،ہندوستانی،یونانی اور رومن اقوام،نیز آسمانی کتابوں توراۃ اور انجیل میں بھی اس کا ذکر ہے۔سیدہ ہاجرہ علیہا السلام(والدۂ اسماعیل علیہا السلام)سیدہ سارہ علیہا السلام کی لونڈی تھیں،جو شاہ مصر نے انھیں ہدیہ میں دی تھیں،سیدہ سارہ علیہا السلام نے آگے ابراہیم علیہ السلام کو دے دی،وہ ان کے پاس رہیں اور ان کے بطن اطہر سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔کئی طریقوں سے انسانوں کو غلام بنایا جاتا تھا: 1: لڑائیوں میں مغلوب لوگ غالب و قاہر لوگوں کے غلام قرار پاتے اور ان کی عورتیں اور بچے بھی غلام شمار ہوتے۔ 2: تنگ دستی کی وجہ سے لوگ اپنے بچے فروخت کر دیتے تھے۔ 3: ڈاکہ اور چوری کے ذریعے سے بھی لوگوں کو ہتھیایا اور غلام بنایا جاتا ہے جیسا کہ کئی یورپین اقوام افریقہ میں غالب آئیں اور انھوں نے افریقیوں کو گرفتار کر کے یورپ میں لے جا کر فروخت کر دیا۔ اسی طرح یورپین بحری قزاق سمندر میں سے گزرنے والی کشتیوں پر دھاوا بول دیتے اور ان کے سواروں کو گرفتار کر
Flag Counter