Maktaba Wahhabi

713 - 692
آزاد کردے۔‘‘[1] اگر کسی غلام کا مالک اس کا قرابت دار بن گیا تو وہ غلام آزاد ہو گیا،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((مَنْ مَّلَکَ ذَا رَحِمٍ مَّحْرَمٍ فَھُوَ حُرٌّ)) ’’جو شخص ’’ذی رحم‘‘(قرابت دار)کا مالک ہو جائے تو وہ(غلام)آزاد ہے۔‘‘[2] تنبیہ:اس سوال کا جواب کہ اسلام نے مسلمانوں پر غلام آزاد کر دینا فرض کیوں نہیں قرار دیا تاکہ پھر کوئی بھی مسلمان اس حکم سے سرتابی نہ کر سکے؟ اس بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ اسلام کی آمد کے وقت غلام لوگوں کی مِلک میں تھے اور یہ بات’ ’عادلہ شریعت‘‘ اور انسان کی جان،مال اور عزت کے محافظ دین کے مناسب نہیں تھی کہ وہ لوگوں پر فرض قرار دے کہ اپنے اموال اپنی ملکیت سے نکال دیں،پھر بہت سے غلاموں کے حق میں بھی یہ بات بہتر نہ تھی کہ وہ آزاد ہو جائیں،اس لیے کہ جو بچے،عورتیں کما نہیں سکتے تھے،وہ کس کے سہارے زندگی بسر کرتے،اس لیے انھیں مسلمان مالک کے قبضے اور تحویل میں رکھا تاکہ ان کی خوراک،لباس اور دیگر ضروریات زندگی مہیا ہوں۔یہ صورتحال ان کے حق میں اس سے ہزار درجہ بہتر تھی کہ انھیں محسن اور اچھے گھریلو ماحول سے نکال کر قطع تعلقی اور محرومی کے جہنم میں دھکیل دیا جاتا۔ غلاموں کے احکام ٭ غلاموں کی آزادی: آزادی کی تعریف:مملوک غلام کو آزاد کر دینا اور اسے غلامی کی ذلت سے نکالنا عتق(آزادی)کہلاتا ہے۔ ٭ آزاد کرنے کا حکم: غلام آزاد کرنا مندوب اور مستحب ہے،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَكُّ رَقَبَةٍ﴾ ’’گردن آزاد کرنا ہے۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَۃً مُّؤْمِنَۃً،أَعْتَقَ اللّٰہُ بِکُلِّ إِرْبٍ مِّنْھَا إِرْبًا مِّنْہُ مِنَ النَّارِ،حَتّٰی فَرْجَہُ بِفَرْجِہِ)) ’’جو شخص کسی مومن غلام کو آزاد کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے عوض آزاد کرنے والے کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دیتا ہے یہاں تک کہ(ہاتھ کے عوض ہاتھ اور پاؤں کے عوض پاؤں اور)شرم گاہ کے عوض شرم گاہ کو آزاد کر دیتا ہے۔‘‘[4]
Flag Counter