Maktaba Wahhabi

714 - 692
٭ آزاد کرنے کی حکمت: انسان کو غلامی کے نقصانات سے بچانا تاکہ وہ اپنی جان اور منافع کا مالک بن جائے اور اپنے ارادہ و اختیار کے مطابق اپنی جان اور منافع کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔ ٭ آزادی کے احکام: 1: مالک کے صریح لفظ:’’میں نے تجھے آزاد کر دیا ہے یا تو آزاد ہے۔‘‘ وغیرہ کہنے سے غلام آزاد ہو جاتا ہے۔اسی طرح کنائی الفاظ سے بھی،بشرطیکہ آزاد کرنے کی نیت سے کہے جائیں،غلام آزاد قرار پاتا ہے جیسا کہ میں نے تیرا راستہ کھلا کر دیا ہے۔یا میرا تیرے اوپر کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘ 2: عاقل و بالغ،جو اپنے معاملات کو خوش اسلوبی سے سمجھتا ہے،کا آزاد کرنا ہی معتبر ہے جو اپنے مال میں تصرف کرنے کا مجاز ہے۔بنا بریں مجنون،نابالغ بچہ اور کم عقل جس پر مال میں تصرف کرنے کی پابندی ہے،اپنا غلام آزاد نہیں کر سکتے،اس لیے کہ یہ اپنے مال میں تصرف کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ 3: اگر غلام دو یا زیادہ آدمیوں کی مشترکہ ملکیت میں ہے اور ایک نے اپنا حصہ آزاد کر دیا اور وہ آزاد کرنے والا مال دار ہے تو وہ باقیوں کے حصے بھی ان کی قیمت ادا کر کے آزاد کرے گا۔لیکن اگر تنگ دست ہے تو جتنا اس نے آزاد کیا وہ آزاد ہے باقی غلام،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَنْ أَعْتَقَ شِرْکًا لَّہُ فِي عَبْدٍ،فَکَانَ لَہُ مَالٌ یَّبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ قُوِّمَ الْعَبْدُ عَلَیْہِ قِیمَۃَ عَدْلٍ فَأَعْطٰی شُرَکَاؤَہُ حِصَصَھُمْ،وَعَتَقَ عَلَیْہِ الْعَبْدُ وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْہُ مَا عَتَقَ)) ’’جو شخص مشترک غلام میں اپنا حصہ آزاد کرتا ہے اور اس کے پاس(پورے)غلام کی قیمت بھی ہے،پھر اس نے اپنے دیگر حصہ داروں کو ان کے حصے کی منصفانہ قیمت ادا کر دی تو وہ سارا آزاد ہو جائے گا،ورنہ جتنا آزاد ہو گا سو ہو گیا۔‘‘[1] 4: اگر کوئی شخص اپنا غلام آزاد کرنا کسی شرط کے ساتھ مشروط کرتا ہے تو شرط کے پائے جانے پر وہ آزاد ہو گا،ورنہ نہیں،مثلاً:کہتا ہے کہ ’’اگر میری عورت نے بچہ جنم دیا تو تو آزاد ہے،چنانچہ بچہ جنم دیتے ہی وہ غلام آزاد ہوجائے گا۔‘‘ 5: جو اپنے غلام کا اکیلا مالک ہے اور اس نے اس کا کچھ حصہ آزاد کر دیا تو اس کا باقی بھی آزاد ہو جائے گا،[2] اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
Flag Counter