Maktaba Wahhabi

718 - 692
’’جو غلام اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے،وہ زانی ہے۔‘‘[1] 7: مالک اپنی مکاتبہ لونڈی سے وطی نہیں کر سکتا،اس لیے کہ مکاتبت کی وجہ سے وہ اس کی خدمت نہیں کرے گی اور نہ اس سے نفع حاصل کر سکتا ہے اور وطی بھی ان منافع میں سے ہے جو مکاتبت کی وجہ سے منقطع ہو جاتے ہیں۔جمہور ائمہ رحمۃ اللہ علیہم کی یہی رائے ہے۔ 8: مکاتب اگر قسط ادا نہ کر سکے اور دوسری قسط کا وقت ہو جائے تو مالک اسے عاجز قرار دے کر غلام بنا سکتا ہے،حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’مکاتب کو اس وقت ’’رقیق‘‘ بنایا جائے،جب لگاتار دو قسطیں اس پر آ جائیں اور وہ ادا نہ کر سکے۔‘‘[2] 9: مکاتبہ لونڈی کا بچہ بھی اس کے ساتھ آزاد ہو جائے گا،اگر اس نے اپنی پوری قسطیں ادا کر دیں لیکن اگر قسطیں ادا کرنے سے قاصر رہی تو بچہ بھی اس کے ساتھ غلام قرار پائے گا،چاہے ’’مکاتبت‘‘کے وقت حمل تھا یا ’’مکاتبت‘‘کے بعد لونڈی حاملہ ہوئی۔یہی جمہور علماء کا مذہب ہے۔ 10: ’’مکاتب‘‘ عاجز ہو جائے تو اس کے ہاتھ میں جو مال ہے،وہ سب مالک کی ملکیت ہو جائے گا،الّا یہ کہ اسے زکاۃ میں سے مال دیا گیا ہو تو اس صورت میں مالدار مالک اسے نہیں لے گاکیونکہ زکاۃ کے مستحق فقراء و مساکین ہیں۔ ام ولد کا بیان: ٭ ام ولد کی تعریف: وہ لونڈی جس کے ساتھ اس کا مالک ہم بستر ہوا اور اس سے اولاد پیدا ہوگئی،ام ولد کہلاتی ہے۔ ٭ لونڈی سے جماع کرنے کا حکم: لونڈی کا مالک اس سے ہم بستر ہو سکتا ہے تو جب اولاد پیدا ہو گی،وہ ’’ام ولد‘‘ بن جائے گی،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ﴿٢٩﴾إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ﴾ ’’اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے کہ بلاشبہ(ان سےجماع کرنے پر)انھیں کچھ ملامت نہیں۔‘‘[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ سے مجامعت کی جن سے ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ نے فرمایا:((أَعْتَقَھَا وَلَدُھَا)) ’’اس کے بچے نے اسے آزاد کر دیا ہے۔‘‘[4] اسی طرح ہاجرہ علیہا السلام(اسماعیل علیہ السلام کی والدہ)حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کی لونڈی تھیں۔ ٭ لونڈی سے مجامعت کی حکمت: 1: لونڈی کے ساتھ شفقت کہ اس کی شہوانی حاجت براری کا قانونی
Flag Counter