Maktaba Wahhabi

102 - 125
وہی معنی مراد ہو جو عربوں کے یہاں معروف ہے،اسی طرح ’’ مطویات‘‘کا بھی وہی معنی ہو جو لغت میں معروف ہے۔ امام بخاری نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے محمد!ہم اللہ کی بابت(کتابوں میں)یہ بات پاتے ہیں کہ وہ(قیامت کے دن)آسمانوں کو ایک انگلی پر،زمینوں کو ایک انگلی پر،درختوں کو ایک انگلی پر،پانی اور تری کو ایک انگلی پراور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا :میں بادشاہ ہوں۔آپ نے یہودی عالم کے قول کی مسکرا کر تصدیق فرمائی یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک نظر آنے لگے،پھر آپ نے یہ آیت کریمہ پڑھی﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِہِ۔۔۔﴾(حدیث نمبر:۴۸۱۱)پھر امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی گرفت میں لے گا اور آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا،اور ایک روایت میں ہے کہ اور ان کو حرکت دے گا،پھر کہے گا ’’میں بادشا ہ ہوں،زمین کے بادشاہ(آج)کہاں ہیں ؟‘‘(حدیث نمبر: ۴۸۱۲) ان دونوں حدیثوں سے معنی اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور کسی مزید بیان کی حاجت باقی نہیں رہتی۔(ص) سورۃ غافر ﴿سورۃ غافر﴾(۹۵۴ /۳۹۱) ٭ اس کو سورہ ’’مؤمن‘‘ اور سورہ ’’طَوْل‘ ‘بھی کہا جاتا ہے۔(حاشیۃ الجمل) ﴿رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْء ٍ رَّحْمَۃً وَعِلْماً۔۔۔۔﴾ أي وسع رحمتک۔۔۔۔ (۹۵۵ /۳۹۱) ٭(وسع)بعض نسخوں میں(وسعت)ہے۔ ﴿قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ۔۔۔﴾
Flag Counter