Maktaba Wahhabi

94 - 125
عوضوں میں سے کسی میں اضافہ ہو تو وہ لغت کے اعتبار سے ربا ہے،ربا حلال وحرام دونوں ہوتا ہے،بیع اور صرف کا ربا حرام ہے،اور وہ ربا(اضافہ)حلال ہے جو اس ہدیہ کے نتیجہ میں ہو جس کو ثواب کا ہدیہ کہا جاتا ہے،اور وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کو ہدیہ دے اور اس سے یہ امید رکھے کہ اس سے اچھا ہدیہ دے گا،ایسے شخص کو اس کے ہدیہ پر نہ ثواب ہوتا ہے نہ گناہ،ابن عباس وغیرہ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر(۳ /۲۱۸۱)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس پر اس سے بہتر ہدیہ لوٹاتے تھے۔(ص) ﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ۔۔۔وَلَئِن جِئْتَہُم بِآیَۃٍ لَیَقُولَنَّ﴾ حذف منہ نون الرفع۔۔۔۔۔۔لالتقاء الساکنین(۸۳۷ /۳۴۵) ٭ حاشیۃ الجمل میں ہے کہ شارح کا یہ قول(حذف منہ الخ)سبقت قلم ہے،بہتر یہ تھا کہ یہ عبارت یہاں سے حذف کردی جاتی،کیوں کہ اس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ یہ فعل(لیقولن)لام کے ضمہ کے ساتھ ہے اور یہ کہ اس کا فاعل وہ واو ہے جو اجتماع ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے،اس عبارت سے یہ بھی وہم ہوتا ہے کہ لام کے ضمہ کے ساتھ بھی کوئی قراء ۃ ہے،حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ سورۃ لقمان ﴿وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَۃٍ أَقْلَامٌ۔۔۔مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللّٰهِ﴾ ۔۔۔لأن معلوماتہ تعالی غیر متناہیۃ(۸۴۳ /۳۴۸) l’’کلمات کی تفسیر ’’معلومات‘‘ سے کرکے مصنف نے گویا یہ مذہب اختیار کیا ہے کہ اللہ کا کلام ’’معنی واحدنفسی قدیم‘‘ ہے،اس کو تعدد کے ساتھ متصف نہیں کیا جاسکتا،حالانکہ درست بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے کلمات اس کے اسی قول وکلام کا نام ہے جس کے لیے ختم ہونا نہیں ہے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ بلا ابتداء کے اول اور بلا انتہاء کے آخر ہے،وہ ازل سے برابر جو چاہتا ہے جب چاہتا ہے کلام کرتا رہتا ہے،ماضی اور مستقبل کسی میں اس کے
Flag Counter