Maktaba Wahhabi

184 - 292
حنوط کی خوشبو آرہی ہے۔ امام صاحب نے فرمایا بے وقتی طلبی سے یہی اندازہ لگایا گیا کہ خلیفہ چونکہ جوش وغضب سے آیا ہے لہٰذا آج ضرور قتل کر دے گا اس لیے کفن پہن کر آیا ہوں۔ منصور یہ جواب سن کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ اے ابا عبداللہ کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ستون اسلام کو اپنے ہاتھ سے نیچے گراؤں۔ اس کے بعد جب ہارون الرشید خلیفہ ہوا۔ تو اس نے عالم مدینہ سے کہا کہ میرے لڑکوں کو قصر معلی میں آکر پڑھایا جائے ۔ امام مالک نے کہا اے امیرالمومنین علم آپ کے خاندان کا ورثہ ہے، جب آپ لوگوں نے ہی اس کی قدر نہ کی تو پھر دوسرا کون اس کی عزت کرے گا۔ لوگ علم کے پاس آیا کرتے ہیں یہ کبھی ان کے پاس نہیں جایا کرتا۔ یہ معقول جواب سن کر ہارون الرشید نے کہا اچھا تو میرے لڑکوں کو علیحدہ وقت دیجیے امام صاحب نے فرمایا یہ بھی ناممکن ہے۔ خلیفہ نے کہا اچھا یہ مجلس درس میں یہ حاضر ہو جایا کریں گے مگر یہ نوازش کیجیے کہ موطا کی قرأت خود فرمایا کریں۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ طریق درس کی تبدیلی بھی ناممکن ہے۔ بالآخر ہارون الرشید کو سوائے خاموشی کے کوئی چارہ نہ رہا اور شہزادوں کو حبشی فاقہ مست اور پھٹے پرانے کپڑوں والے بدوی عرب طلباء کے دوش بدوش بٹھا کر موطا کی سماعت پر رضا مند ہوگیا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا صبر : امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ دنیائے اسلام کی وہ شخصیت ہیں جن کی نظر امت میں کمیاب ہے۔ چنانچہ علامہ شبلی نعمانی نے آپ کا تعارف سیرت النعمان میں یوں کرایا ہے۔ بڑے بڑے علماء کا قول ہے کہ اسلام کو دو شخصوں نے نہایت نازک وقت میں محفوظ کیا: 1۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جنہوں نے مرتدین عرب کا استیصال کیا 2۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جو مامون رشید وغیرہ کے زمانے میں حدوث قرآن (خلق قرآن) کے منکر رہے بلکہ ایک اعتبار سے امام احمد بن حنبل کو ترجیح ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے معاون ومددگار تھے لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی
Flag Counter