Maktaba Wahhabi

266 - 292
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے رقم طرازہیں: ’’نفس انسانی پرصبر وتحمل اس وقت بڑاہی شاق گزرتاہے جبکہ مصیبت کا اس پرحملہ ہو اور معاملہ گرم ہو اس موقع پر صبر کا ثواب بھی بڑا ہی عظیم الشان ہے۔ اس وقت صبرکرنا جگرگردے کی بات ہے اور صبرواستقامت کے بلند ترین مرتبہ پر ثابت قدمی کی دلیل بھی اور جب معاملہ ٹھنڈاپڑجائے اور مصائب وآلام کی تلخی ختم ہوجائے تو پھرتو سب کو صبرآہی جاتا ہے۔ اس میں کوئی بڑی بات نہیں اسی لیے کہا گیا ہے عقل منداور ہوشمند شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصیبت وابتلاء کے وقت احمق شخص سے تین گنا زیادہ چوکس وچوکنا رہے۔‘‘[1] صبر کی قدرومنزلت 1۔اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری پر: صبرکے مختلف انواع واقسام میں سے قدرومنزلت میں بلندترین مرتبہ اور نفوس انسانی پربوجھل ترین چیز اللہ کی اطاعت وفرماں برداری پر صبر وتحمل ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے: (فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ) (مریم:65) ’’سو اس کی عبادت کر اور اس کی عبادت پر خوب صابر رہ۔ ‘‘ یعنی کسی کے کہنے سننے کی پرواہ مت کرو اپنے دل کو رب ذوالجلال کی بندگی پر جمائے رکھو جو سارے جہان کارب ہے اور سب سے نرالی صفات رکھتا ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ میں لفظ (اصطبر) کا ورودہواہے اور یہ لفظ (اصبر) کے مقابلہ میں استعمال ہواہے، چونکہ ترکیب جملہ میں الفاط کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے اس قاعدهٔ کلیہ کی بنیاد کہا جاسکتا ہے کہ (لفظ) اصطبر(اصبر) کے مقابلہ میں زیادہ فصیح و بلیغ ہے اور اپنے معنی و مراد کی طرف دلالت میں زیادہ موزوں ومناسب ہے بنسبت
Flag Counter