Maktaba Wahhabi

274 - 292
شہوات نفسانی کے چنگل میں جکڑدیا گیا ہے۔‘‘ [1] تواے ابن آدم' طبیعت پر گراں گذرنے والی چیزوں پر صبرکیے بغیر جنت میں کیوں کر داخل ہوسکتے ہو؟ اور تم اپنے آپ کو شہوات نفسانیہ پر کنٹرول کیے بغیر کیوں کر جہنم کی آگ سے بچا سکتے ہو؟ حدیث مذکور اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ جنت تک رسائی کا راستہ (مکارہ) یعنی طبیعت پر گراں بار چیزوں کوعبورکرتاہواگزرتاہے کیونکہ حدیث میں (حفت) کا لفظ وارد ہوا ہے اس مرادیہ ہے کہ جنت کو ( مکارہ) ہرچہارجانب سے طبیعت پر گراں بار چیزیں گھیرے ہوئے ہیں۔ اگرتم مکارہ یعنی طبیعت پر گراں بار چیزوں کے پرخطرراستہ کو عبور نہیں کروگے تو جنت میں کیسے داخل ہوگے؟ لہٰذا جنت میں داخلہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تم دل کو ناپسند چیزوں پر قائم پل پرپیادہ چلتے ہوئے صحیح سلامت اس سے گزرجاؤ اور ایسا بغیر صبر وتحمل کی بیساکھی کا سہارالیے ہوئے ناممکن ہے اور جہاں تک عذاب جہنم کامعاملہ ہے تو اسے شہوات ومرغوبات سے ڈھانپ دیاگیاہے۔ گناہوں سے اجتناب اور ان سے کنارہ کشی کے بارے میں صبر وتحمل سے کام لیے بغیر جہنم سے گلوخلاصی ناممکن ہے(اللّٰھم اعذنامن عذاب النار جنت میں فرشتوں کا سلام : اللہ تعالیٰ صابرین کا وصف بیان کرتے ہوئے بوجہ امتنان بیان فرمارہاہے کہ اس کے ملائکہ جنت میں صابرین وشاکرین پر سلام بھیجتےہیں۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: (سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد: 24) ’’سلام ہو تم پراس کے بدلے جو تم نے صبر کیا۔ سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔‘‘ جنت میں بیت الحمدبطورجزا : اگربندہ اپنی اولاد کے فوت ہوجانے پرصبرسے کام لے تواللہ تعالیٰ اس کے عوض جنت
Flag Counter