Maktaba Wahhabi

118 - 186
یا کسی کو کوئی مصیبت پیش آگئی ہوگی۔ یہ سارے خیالات اور وسوسے بدشگونی اور اللہ تعالیٰ پر یقین نہ رکھنے کی وجہ سے پیش آتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا ہے۔ اخلاقیات پر بد شگونی کا اثر: بدشگونی کا اخلاق کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ بدشگونی امید کو کمزور کرتی ہے اور ناکامی کی طرف رہنمائی کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ بدشگونی لینے والا آدمی ہمیشہ اداس رہتا ہے۔ آپ اسے کبھی بھی تروتازہ نہیں پائیں گے۔ اس کے برعکس اچھا شگون چہرے پر رونق پیدا کرتا ہے۔ جس کے چہرے پر آپ ہمیشہ مسکراہٹ پائیں تو سمجھ جائیں کہ یہ آدمی معاملات میں اچھا شگون لینے والا ہے۔ اچھا شگون لینے والا اور بدشگونی لینے والے کی مثال پانی کے آدھے بھرے ہوئے گلاس سے واضح ہوتی ہے۔ اگر پانی سے آدھا بھرا ہوا گلاس اچھے شگون لینے والے کے سامنے لایا جائے تو وہ کہے گا کہ یہ آدھا بھرا ہوا گلاس ہے۔ جب کہ بدشگونی لینے والا کہے گا کہ یہ آدھا خالی گلاس ہے۔ اسی طرح اچھا شگون لینے والا کسی بلند پہاڑی ٹیلے پر چڑھتے ہوئے راستے میں آنے والے ندی نالے دیکھے گا، سبزہ دیکھ کر خوش ہو گا اور اوپر چڑھ جائے گا۔ جب کہ بدشگون زمین کے ویرانے اور خشکی کو دیکھے گا تو غمزدہ ہو جائے گا اور چڑھنے میں ناکام ہوجائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس کی طبیعت میں چستی یا نشاط ہوتا تو وہ ضرور چڑھنے میں کامیاب ہوجاتا۔ یہی اصول تمام کاموں میں استعمال کرنا چاہیے۔ بیمار کو شفا کا شگون لینا چاہیے۔ طالب علم کو کامیابی کا، تنگ دست کو خوشحالی کا اور اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔ اچھے شگون کا ہماری زندگی میں ٹھہراؤ اور قرار و سکون کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔ عبادت کے معاملے کو ہی لے لیجئے، بندہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا شگون لیتا ہے کہ جب وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادت کو ضائع نہ کرے گا۔ اسی طرح ایک طالب علم سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نفع بخش علم عطا فرمائیں گے۔ غرض کہ ہمارے اعمال ووظائف اور ہر چیز کا اچھے شگون کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اپنے معاشرے
Flag Counter