Maktaba Wahhabi

32 - 186
تنبیہ کرتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے فرمایا: (وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ) (یٰس:۶۲) ’’اور بلاشبہ یقینا اس نے تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کردیا، تو کیا تم نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ وساوس میں مبتلا لوگوں پر داخل ہونے کے لیے شیطان کے پاس بہت سے دروازے ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں غور و فکر: بندوں کو اس بات سے روک دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی حقیقت و کیفیت پر غور و فکر کریں۔ اس کے برعکس حکم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر غور و فکر کریں کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شیطان بعض لوگوں کو وسوسوں میں ڈال دیتا ہے اور ان کے دل میں سوال پید اکر دیتا ہے جن سے وہ پریشان ہو جاتے ہیں اورا ن کے دل تنگ ہو جاتے ہیں۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں بھی ایسے سوال پیدا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان سوالوں سے بچنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ((جَائَ نَاسٌ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَسَأَلُوہٗ:اِنَّا نَجِدُ فِيأَنْفُسِنَا مَایَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ یَّتَکَلَّمَ بِہٖ:قَالَ: وَقَدْ وَجَدْتُمُوہُ؟ قَالُوا: نَعَمَ؛ قَالَ: ذٰلِکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَانِِ)) [1] ’’کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا: ہمارے دلوں میں بعض دفعہ ایسے خیالات آجاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان کرنا پسند نہیں کرتا۔ آپ نے پوچھا: کیا واقعی ایسے خیالات پیدا ہوتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا
Flag Counter