Maktaba Wahhabi

54 - 186
سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((اِنَّ الشَّیْطَانَ یَطِیْفُ بِالْعَبْدِ لِیَقْطَعَ عَلَیْہِ صَلَاتَہُ فَاِذَا أَعْیَاہُ نَفَخَ فِي دُبُرِہٖ، فَـلَا یَنْصَرِفْ حَتّٰی یَسْمَعَ صَوْتاً أَوْ یَجِدَ رِیْحاً، وَیَأْتِیْہِ فَیَعْصِرُذَکَرَہُ فَیُرِیْہِ أَنَّہُ خَرَجَ مِنْہُ شَیْئٌ فَلَا یَنْصَرِفْ حَتّٰی یَسْتَیْقِنَ)) [1] ’’بے شک شیطان بندے کو خیال ڈالتا ہے تاکہ اس کی نماز خراب کردے۔ جب اسے لا چار کر دیتا ہے تو اس کی دبر میں پھونک مارتا ہے ۔ پس اسے چاہیے کہ وہ نہ لوٹے یہاں تک کہ آواز سن لے یا بو پا لے۔ شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اس کی شرمگاہ کو نچوڑتا ہے ۔ بندہ سمجھتا ہے کہ اس کی شرمگاہ سے کوئی چیز نکلی ہے، لہٰذا بندہ نماز سے نہ پلٹے یہاں تک کہ اسے یقین ہو جائے۔‘‘ یہ جتنی بھی احادیث ہیں شک اور وسوے کو دور کرتی ہیں اور گمان اور شک میں مبتلا بندے پر حجت قائم کرتی ہیں۔ گندگی کو روندنے کے بارے میں وسوسے: بہت سے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین وضو کرنے کے بعد پیدل چل کر مسجد جاتے تھے۔ اس دوران ان کے پائوں نجس چیزوں کو بھی روندتے تھے لیکن وہ اپنے پائوں دوبارہ نہیں دھوتے تھے۔ امام ابو دائود اور امام ترمذی نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ’’ہم گندی چیز کو روندنے سے وضو نہیں کرتے تھے۔‘‘ امیر المؤمنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ وہ بارش سے بننے والے کیچڑ سے گزر کر مسجد میں داخل ہوئے اور پائوں دھوئے بغیر نمازپڑھی۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے متعلق سوال کیا گیا جو گندگی کو روندتا ہے؟ تو
Flag Counter