Maktaba Wahhabi

62 - 186
امام ابن القیم رحمہ اللہ کی بات سچی ہے، لیکن بعض جاہلوں کو دیکھیں کہ وہ کس طرح سنت کی پیروی کرنے والے ایک آدمی کو سرزنش کرتے ہیں۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھاتے ہوئے اپنے جوتے اتار دیے تو لوگوں نے بھی نماز میں اپنے جوتے اتار دیے۔ جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور پوچھا کہ آپ لوگوں نے جوتے کیوں اتار دیے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کو جوتے اتارتے دیکھا تو ہم نے بھی جوتے اتار دیے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ جِبْرِیْلَ أَتَانِي فَاَخْبَرَنِي أَنَّ بِہِمَا خُبْثاً، فَاِذَا جَائَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیُقَلِّبْ نَعْلَیْہِ، ثُمَّ لِیَنْظُرْفَاِنّْ رَأَی خُبْثاً فَلْیَمْسَحْہٗ بِالْاَرْضِ، ثُمَّ لِیُصَلِّ فِیْھِمَا)) [1] ’’بے شک میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور مجھے خبر دی کہ ان جوتوں میں گندگی لگی ہوئی ہے ۔ جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو وہ جوتے کو الٹا کر کے دیکھ لے، اگر گندگی لگی ہوئی ہو تو اسے زمین پررگڑلے، پھر ان میں نماز پڑھے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں جوتے پہننے کا حکم دیا تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خَالِفُوْا الْیَھُوْدَ فَاِنَّہُمْ لَا یُصَلُّوْنَ فِي نِعَالِھمْ وَلَا خِفَافِہِمْ)) [2] ’’یہودیوں کی مخالفت کرو بے شک وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے۔‘‘ نیت میں وسوسے: جب بندہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کرنے لگتا ہے تو اس قسم کے وسوسے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب بندہ نماز پڑھنے لگتا ہے تو شیطا ن آکر اس سے کہتا ہے کہ تو دکھلاوا
Flag Counter