Maktaba Wahhabi

136 - 211
باپ کی زبان سے ہمہ وقت نکلتے رہتے ہیں، شاید بُرے نہیں ہیں، پھر وہ بھی بے جھجک انھیں گالیوں کی ریہرسل شروع کر دیتے ہیں۔شروع شروع میں جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں، ان کی معصوم زبان سے یہ گالیاں بعض والدین کو بڑی پیاری پیاری لگتی ہیں اور وہ انھیں سن سن کر بڑے خوش ہوتے ہیں، لیکن یہی بچے جب بڑے ہو کر اپنے والدین کو گالی بکنا شروع کرتے ہیں، تب والدین کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی غلط تربیت نے اپنا رنگ دکھا دیا ہے۔ 2. بُری صحبت کے ذریعے: بُرے لڑکے عموماً بازاروں، کلبوں، گلیوں اور شاہراہوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔جب بچہ اپنا زیادہ وقت ان جگہوں پر صَرف کرنے لگتا ہے تو پھر ان سے وہ ان گندی گالیوں اور فحش کلمات کو سیکھتا ہے اور وہ انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بُرے اخلاق اور بُری تربیت پر پروان چڑھنے لگتا ہے۔والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان مقامات سے حتی الامکان بچانے کی کوشش کریں۔ بچپن ہی سے اپنی اولاد کے دلوں میں سبّ وشتم اور گالی گلوچ سے نفرت پیدا کریں اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فرمودات یاد کرائیں، جو اس برائی کی مذمت میں ہیں، مثلاً: 1 ((سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقِتَالُہٗ کُفْرٌ))[1] ’’مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اس سے لڑائی اور جنگ کرنا کفر ہے۔‘‘ 2 بڑے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بُرا بھلا کہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:اے اللہ کے رسول! کوئی اپنے
Flag Counter