Maktaba Wahhabi

119 - 393
لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین دار عورت کے حاصل کرنے کا جو حکم دیا ہے تو وہ اس لیے کہ یہی انتہائے مطلوب و مقصود ہے۔ ‘‘ [1] ۶۔ ثانیاً:شادی کرنے والے فقیر شخص کی مادی امداد: شادی کا ارادہ کرنے والے مفلس لوگوں کے لیے صرف معنوی امداد و پیش کرنے پر ہی اسلام نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس نے ان کے لیے اسی طرح مادی امداد بھی پیش کی ہے۔ اسلام نے اولاد کی شادی کی ذمہ داری کا بوجھ باپوں کے کندھوں پر ڈالا ہے، اس نے اسلامی معاشرے کو بھی ان فقراء کی امداد کا حکم دیا ہے، جو شادی کرنا چاہتے ہوں نیز اس نے اسلامی حکومت کو بھی ان لوگوں کی مدد کا حکم دیا ہے۔ ۷۔ الف۔ بچوں کی شادی کے بارے میں باپوں کا فرض: بچوں کی شادی کے بارے میں باپوں کی ذمہ داری سے متعلق امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بیٹے کو جب نکاح کی ضرورت ہو تو اس کے باپ کے لیے لازم ہے کہ وہ اسے عفیف و پاک زندگی بسر کرنے کا موقعہ فراہم کرے، شافعی مذہب میں بھی ظاہر قول یہی ہے۔ [2] بعض مغربی سکالرز نے باپوں کو اس طرف بھرپور توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی شادی کے اخراجات میں حصہ ڈالیں، یہ اس لیے کہ شادی کی تاخیر کے نتیجہ میں رونما ہونے والے فساد کا انھوں نے خودمشاہدہ کرلیا ہے۔ ویل ڈیورانٹ نے لکھا ہے کہ ’’چوکنا باپ اور غیور ماں دونوں ناراضی کے عالم میں نوجوان بیٹے سے پوچھتے ہیں کہ ابھی وہ کتنا مال کمائے گا تاکہ وہ اس مجنون ٹیکس(شادی)کو ادا کرنے کے قابل ہوسکے، معلوم ہوتا ہے کہ جیب کی حکمت ہی والدین کا بنیادی فلسفہ ہے، جب کہ وہ خود آدھی
Flag Counter