Maktaba Wahhabi

120 - 393
عمر بسر کرچکے ہیں لیکن وہ اپنی بجھی ہوئی شہوت کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور اب ان کے دل میں یہ بات نہیں آتی ایک جوان شخص کے جذبات بعض ایسے امور کو بھی خوشگوار سمجھتے ہیں، جنھیں ایک بوڑھے شخص کی عقل نہیں سمجھ سکتی۔ وہ نسل جو عمر میں بڑی ہے، وہ اخلاق سے بھی زیادہ دور ہے۔ ان کے لیے واجب ہے کہ سعادت و کامرانی اور فرد اور معاشرے کی صحت کی نسبت مال کو دوسرے درجہ میں رکھیں، وہ فطرت کے ساتھ تعاون کریں بلکہ قربانی دیں تاکہ ان کے بیٹوں کے لیے جلد شادی کرنا ممکن ہو، اس نظریہ کی کامیابی تک ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم نوجوانوں کی اخلاقی بے راہ روی کا سبب ان کے باپوں کے تجارتی فلسفہ کو قرار دیں۔ ‘‘[1] ۸۔ ب۔ بیوگان کی شادی سے متعلق اسلامی معاشرے کی ذمہ داری: جہاں تک بیوگان کی شادی سے متعلق اسلامی معاشرے کی ذمہ داری کا تعلق ہے، تو اس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَاَنکِحُوْا الْاَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَائِکُمْ۔[2] (اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں(نکاح کردیا کرو)،) علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے جس کا زوج نہ ہو، اس کا نکاح کردو، کیونکہ عفت و پاک دامنی حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ [3] سید قطب رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان کی شادی کے بارے میں یہ جماعت کو حکم ہے، جمہور کے نزدیک یہاں امر استحباب کے معنی میں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی کئی مرد اور
Flag Counter