Maktaba Wahhabi

144 - 393
میں کیا حکم ہے اور پھر یہ بیان کریں گے کہ اولیاء کے سو تصرف کا اسلام نے کس طرح علاج کیا ہے، ان دونوں باتوں کو الگ الگ مطلب کے عنوان سے بیان کیا جائے گا۔ مطلب اوّل اولیاء کے عدم موجود کی صورت میں حکم ۱۸۔ تمہید۔ ۱۹۔ ولی کے اصلاً موجود نہ ہونے کی صورت میں حکم۔ ۲۰۔ سفر کی وجہ سے ولی کے غائب ہونے کی صورت میں حکم۔ ۲۱۔ ولی کے مفقود یا قیدی ہونے کی وجہ سے غائب ہونے کی صورت میں حکم۔ ۲۲۔ ولی کے ولایت سے محروم ہونے کی صورت میں حکم۔ ۱۸۔ تمہید: اولیاء کی عدمِ موجودگی کبھی حقیقی ہوتی ہے اور کبھی حکمی، اولیاء کی حقیقی عدمِ موجودگی سے ہماری مراد یہ ہے کہ عقد نکاح کے امور سرانجام دیئے جانے کے وقت جب ان کی ضرورت ہو وہ بالکل موجود ہی نہ ہوں اور حکمی طور پر ان کی عدم موجودگی سے ہماری مراد یہ ہے کہ وہ اس وقت زندہ تو ہوں لیکن ان کی طرف رجوع کرنا ممکن نہ ہو اور یہ اس لیے کہ وہ سفر میں ہوں یا ان کے بارے میں کوئی خبر نہ ہو یا وہ قیدی ہوں یا وہ ولایت سے مانع اسباب میں سے کوئی سبب موجود ہو، اس مشکل سے متعلق تمام پہلوؤں کا اسلام نے حل پیش کیا ہے تاکہ ولی کی عدمِ موجودگی نکاح میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ ۱۹۔ ولی کے اصلاً موجود نہ ہونے کی صورت میں حکم: الف۔ جب ولی اصلاً موجود ہی نہ ہو تو اس کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter