Maktaba Wahhabi

257 - 393
تاکہ زوجین میں سے ہر ایک اصلاح احوال کے لیے کوشش کرے اور ایک زوج کی بجائے کسی دوسرے زوج سے رشتہ استوار کرلے؟ اس مسئلہ میں ہم یہودیت و نصرانیت کے مؤقف کو بیان کریں گے اور پھر ہم اس حل کا ذکر کریں گے، جو اس بارے میں اسلام نے پیش کیا ہے۔ ۱۰۔ طلاق کے بارے میں یہودیت و نصرانیت کا مؤقف: اس مسئلہ میں یہودیت کا مؤقف سفر تشنیۃ الاشتراع میں اس طرح مذکور ہے ’’ جب کوئی شخص کسی عورت کو اپنی بیوی بنالے اور خود اس کا شوہر بن جائے اور پھر وہ عورت کسی ایسے عیب کی وجہ سے، جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہو، اپنے شوہر کے ہاں پذیرائی حاصل نہ کرسکے، تو وہ اس کے لیے طلاق نامہ لکھ کر اس کے ہاتھ میں دے دے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے۔ ‘‘[1] عیسائیوں کا مؤقف اس مسئلہ میں یہودیوں کے بالکل مخالف ہے۔ اگرچہ ان میں اختلاف ہے لیکن عیسائی طلاق کو بالکل حرام قرار دیتے ہیں اور اسے انتہائی ناگزیر حالات ہی میں جائز قرار دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نصاریٰ بعض لوگوں کے لیے نکاح کو حرام قرار دیتے ہیں اور جس کے لیے نکاح جائز قرار دیتے ہیں، اس کے لیے طلاق جائز قرار نہیں دیتے، یہودی طلاق کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن مطلقہ اگر اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرلے، تو ان کے ہاں اس کے لیے وہ عورت حرام ہوگی، نصاریٰ کے ہاں طلاق نہیں اور یہودیوں کے نزدیک اگر عورت کسی اور سے نکاح کرلے، تو پھر پہلے شوہر کے لیے مراجعت کا کوئی حق نہیں ہے۔ [2]
Flag Counter