Maktaba Wahhabi

147 - 208
بال بچوں میں بیٹھے اور ایک تہائی رات رہ گئی تو مصلّٰی پر آگئے۔ نماز و ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوگئے اور پھر جمعرات کی شب ہی ان کی روح قفصِ عنصری سے پرواز کرگئی کیونکہ عمر بھر وہ سنّت کے مطابق پیر وجمعرات کو ہی سفر کرنے کو ترجیح دیتے رہے اور وقتِ رحلت آپ کو اگلے جہاں کا سفر بھی جمعرات کو ہی کرنا پڑا۔[1] اپنی ذات میں جماعت وانجمن: شیخ موصوف کے دفتر کے مدیر عام ڈاکٹر عبد اللہ الحکمی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص واضح و روشن، صاف و شفاف اور بیّن و جلی اسلام کو دیکھنا چاہے تو وہ سماحۃ الشیخ ابن باز اور ان کی سیرت کو دیکھ لے، وہ چلتے پھرتے قرآن و سنّت کی بہترین مثال تھے۔ مجھے اللہ کی قسم ہے! میں نے کبھی آپ کو کوئی معیوب کام، غلط حرکت اور کسی سنّت کی مخالفت کرتے نہیں دیکھا۔[2] سنن ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ’’یَدُ اللّٰہِ عَلَـی الْجَمَاعَۃِ‘‘ کی شرح بیان کرتے ہوئے پہلے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پھر کچھ دوسرے لوگوں کو اور آخر میں ابو حمزۃ السُّکری کو ’’جماعت‘‘ قرار دیا تھا۔[3] اور آج کے دور میں ہمارے ممدوح اپنی ذات میں جماعت و انجمن تھے۔ اللہ نے ان سے نورِ بصارت تو چھین لیا مگر اس کے عوض نورِ بصیرت عطا کردیا جس کی بدولت انھوں نے تمام مشکلات کو چیلنج کیا اور ایمان کی فلک بوس بلندیوں تک پہنچ گئے تھے، وہ قاضی، معلم و مربی اور مرشد و مصلح تھے۔ وہ معہد و کلیہ (کالج) سے لے کر اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ کے پہلے وائس
Flag Counter