الف کے عوض واؤ کی کتابت کا بیان شیخین نے آٹھ الفاظ میں الف کو واؤ کی صورت میں لکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ وہ درج ذیل ہیں۔ الرِّبَوٰاْ جیسے بھی آئے، الْغَدَوٰۃِ (الانعام، الکہف) کَمِشْکَٰوۃٍ (النور) إِلَی النَّجَٰوۃِ (غافر) وَمَنَوٰۃِ (النجم) الصَّلَوٰۃَ، الزَّکَوٰۃَ اور الْحَیَوٰۃِ جیسے بھی آئیں، ان پر لام أل داخل ہو یا اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوں۔ لیکن اگر اسم ضمیر کی طرف مضاف ہوں جیسے صَلَاتِی، صَلَاتِھِمْ، صَلَاتَکَ، صَلَاتَہُ، لِحَیَاتِی، حَیَاتِکُمْ اور حَیَاتُنَا اکثر مصاحف میں الف کے ساتھ مکتوب ہیں اور اسی پر عمل ہے۔ ان میں سے جو کلمات نکرہ واقع ہوں جیسے حَیَٰوۃً طَیِّبَۃً، مِّن قَبْلِ صَلَوٰۃِ الْفَجْرِ اور مِّنہُ زَکَوٰۃً ان کے مرسوم بالواؤ ہونے میں امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی اختلاف وارد نہیں ہوا۔ جبکہ امام دانی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ کلمات بعض عراقی مصاحف میں الف کے ساتھ اور باقی مصاحف میں واؤ کے ساتھ مرسوم ہیں۔ اور ان میں عمل مرسوم بالواؤ پر ہے۔ شیخین نے مِّن رِّبًا (الروم) میں مصاحف کا اختلاف نقل کیا ہے۔ جبکہ عمل الف کی کتابت پر ہے۔ |