Maktaba Wahhabi

52 - 98
طرح بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ اظہارِ محبت کرتے ہیں۔ کورنش بجا لانا اور اس کے لیے ’’میرے آقا‘‘ اور ’’میرے مولانا‘‘ کے گھسے پٹے غلامانہ الفاظ استعمال کرنا۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے علامہ محمد البشیر الابراہیمی الجزائری کی کتاب ’’البصائر‘‘ قابلِ مطالعہ ہے۔[1] 19. استاد طالب علم کے لیے سرمایۂ حیات: آپ استاد کے اخلاقِ حسنہ اور اوصافِ حمیدہ کو اپنے کردار میں سمو لیں، تعلیم و تعلّم تو اضافی فائدہ ہے، لیکن ایسا نہ ہو کہ استاد کی عقیدت و محبت میں آپ اتنا آگے نکل جائیں کہ ایسی جگ ہنسائی ہو کہ جسے آپ تو نہ جان سکیں مگر جو آپ کو دیکھے وہ جان جائے۔ آواز اور اندازِ گفتگو میں آپ استاد کی تقلید نہ کریں اور نہ چال ڈھال اور حرکات و سکنات میں، بے شک وہ انہی اوصاف کی بنا پر استادِ محترم ہیں۔ آپ ان باتوں میں استاد کا نقال بن کر اپنے مقام سے نہ گریں۔ 20. تعلیم میں استاد کا جوش و ولولہ: دورانِ تعلیم طالب علم استاد کی ہر بات کو دل جمعی سے سننے اور اپنے محسوسات کو استاد کے محسوسات سے ہم آہنگ کرنے میں جتنا اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گا اتنا ہی استاد ولولے سے پڑھائے گا۔ لہٰذا آپ اس بات سے مجتنب رہیں کہ کہیں آپ کی سستی، سرد مہری، آرام طلبی، غائب دماغی اور بے توجہی سے حصولِ علم کا یہ سلسلہ منقطع نہ ہو جائے۔ حافظ خطیب بغدادی فرماتے ہیں: علمی فائدے کا حق یہ ہے کہ اُسے سچے متلاشی کی طرف بھیجا جائے اور اسے صرف اس کی رغبت رکھنے والے پر پیش کیا
Flag Counter