یعنی چھوٹے ہوئے دنوں کا روزہ دوسرے دنوں میں مکمل کر لے اور چھو ٹے ہوئے روزوں کی تعداد چاہے مسلسل روزے رکھ کر پو ری کرے یا متفرق طور پر روزے رکھ کر پوری کرے، دونوں طرح جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے، انھیں تسلسل جیسی کسی چیز سے مقید نہیں کیا ہے۔[1]
درست بات یہ کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر چاہے تو روزوں کی قضا علاحدہ علاحدہ کرے۔[2]
تاہم اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ روزوں کی قضا پہلی فرصت میں اور مسلسل کرنا افضل ہے، جس کی تین وجوہات ہیں:
1. پہلی یہ کہ قضا بھی ادا کے مشابہ ہوتی ہے اور ادا میں لگاتار روزہ رکھنا پڑتا ہے۔
2. دوسری یہ کہ بندہ لگاتار روزہ رکھنے میں ذمہ داری سے بروقت فارغ ہو جاتا ہے، وہ اس طرح کہ اگر ایک دن روزہ رکھے گا اور ایک دن افطا کرے گا تو قضا میں تاخیر ہوگی اور اگر مسلسل و لگاتار روزے رکھے گا تو قضا جلدی ہو جائے گی۔
3. تیسری یہ کہ مسلسل اور لگاتار روزے رکھنا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ انسان نہیں جانتا کہ اسے آیندہ کیا پیش آنے والا ہے، آج وہ تندرست ہے، ممکن ہے کل بیمار ہو جائے، آج و ہ زندہ ہے کل فوت ہو جائے۔
فرض روزوں کی قضا سے پہلے نفلی روزے؟
اگر وقت تنگ نہ ہو تو رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے نفلی روزے رکھنا صحیح اور جائز ہے۔ وقت کشادہ ہے لہٰذا نفلی روزے رکھنا جائز ہے، جیسے کوئی فرض نماز سے پہلے نفلی نماز پڑھے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، کیونکہ اس میں قیاس واضح ہے، لیکن بہتر بھی یہی ہے کہ پہلے قضا کرلے، اگرچہ عشر ہ ذی الحجہ، یومِ عرفہ اور یومِ عاشورا گزر جائے، پھر بھی ان ایام میں وہ اپنے روزے رکھے، ہو سکتا ہے کہ وہ اس طرح قضا اور ان ایام میں روزہ رکھنے کا اجر و ثواب پالے۔ فرض کیجیے اگر وہ قضا
|