Maktaba Wahhabi

174 - 389
تھے۔[1]وہ کہتے ہیں کہ تقلید کی ممانعت عالم اور عامی سب کے لیے ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے عامی یا عالم کی تفریق نہیں فرمائی اور اللہ تعالیٰ بھولنے والا نہیں ہے اس لیے ہر ایک کو اپنی وسعت کے مطابق اجتہاد کرنا چاہیے۔[2] ابن حزم نے لکھا ہے کہ اجتہاد میں غلطی کرنے والا مقلد سے زیادہ اجر کا مستحق اور افضل ہے خواہ مقلد درست موقف کا حامل ہی کیوں نہ ہو کہ مقلد خدا کا نافرمان ہے [3]۔تقلید کے وجوب یا جواز کے لیے جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ،ابن حزم نے ان سب پر مفصل نقد کیا ہے اور تقلید کی نفی میں سلف کے اقوال سے استشہاد کیا ہے[4]۔ مجتہدین کے اقسام فقہا کے یہاں مجتہدین کے مختلف اقسام ہیں ؛ مثلاً مجتہد مطلق ، مجتہد مذہب ، مجتہد ترجیح ، مجتہد تخریج، مجتہد فتاوی وغیرہ ۔ اس ضمن میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا اجتہاد ، قابل تقسیم شےہےیا نہیں ؟ یعنی کیا ایک شخص تمام مسائل کے بجاے بعض مسائل میں اجتہاد کا مجاز ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ ابن حزم کے نزدیک اگر کوئی شخص ایک بھی مسئلے کا علم رکھتا ہے تو وہ اس کے متعلق اجتہاد و فتویٰ کا حق رکھتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : "وكل من علم مسألة واحدة من دينه على الرتبة التي ذكرنا أجاز له أن يفتي بها وليس جهله بما جهل بمانع من أن يفتي بما علم ولا علمه بما علم بمبيح له أن يفتي فيما جهل وليس أحد بعد النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم إلا وقد غاب عنه من العلم كثير هو موجود عند غيره فلو لم يفت إلا من أحاط بجميع العلم لما حل لأحد من الناس بعد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أن يفتي أصلا وهذا لا يقوله مسلم وهو إبطال للدين وكفر من قائله."[5] ’’ہر وہ شخص جو ایک بھی دینی مسئلے کا اس درجہ علم رکھتا ہے جو ہم نے بیان کیا تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کے بارے میں فتویٰ دے ۔ اس کا بعض مسائل سےلا علم ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی ایسا نہیں ہے جس سے بہت سا علم مخفی نہ رہ گیا ہو جب کہ دوسرے کے پاس وہ موجود ہوتا ہے ۔ اگر فتوے کے لیے تمام علم کا احاطہ ہونے کی شرط لگا دی جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کو فتویٰ دینے کا استحقاق ہی نہ ہوتا اور یہ بات
Flag Counter